انگریزوں کی دماغ گھما دینے والی سفاکی کی خبریں دہلی پہنچ رہی تھیں۔ کانپور میں جنرل نیل نے جو کچھ کیا تھا، وہ کسی کا بھی دل لرزا سکتا تھا۔ ج...
انگریزوں کی دماغ گھما دینے والی سفاکی کی خبریں دہلی پہنچ رہی تھیں۔ کانپور میں جنرل نیل نے جو کچھ کیا تھا، وہ کسی کا بھی دل لرزا سکتا تھا۔ جس جگہ پر قبضہ کیا، وہاں قتلِ عام کیا۔ راستے کے ہر گاوٗں کو نذرِ آتش کر دیا۔ خواتین اور بچوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی۔ سکھوں کو اجازت تھی کہ پکڑے جانے والوں کو جیسے مرضی اذیت دیں۔ خون آلود زمین چاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں کو سور اور ہندووٗں کو گائے کا گوشت کھلایا گیا اور پھر لٹکا دیا گیا اور اسی پر بس نہیں کیا۔ ہندووٗں کو دفن کیا اور مسلمانوں کو جلا دیا گیا۔
ہر جگہ پر انگریزوں نے خود کو قائل کر لیا تھا کہ چونکہ انگریزوں کا قتلِ عام ہوا ہے، اس لئے انقلابیوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک روا رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اپنے مخالفین کو انسان سمجھنا بند کر دیا گیا تھا۔ کیپٹن والڈ کی ڈائری سے، “میرے لئے یہ کلوٹے سانپ اور بچھووٗں جیسے ہیں۔ ان کا واحد علاج ان کا سر کچل دینا ہے”۔
دہلی کے اندر خوراک، اسلحہ اور پیسے ختم ہو رہے تھے۔ فاقہ زدہ سپاہیوں نے دہلی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ گریٹ ہیڈ کہتے ہیں، “مجھے شہزادوں کے خط ملنے لگے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے برٹش کو پسند کرتے رہے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں اور وہ یہ پوچھتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب میں نہیں بتاوٗں گا۔ یہ انہوں نے خود کر کے دکھانا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے انقلابیوں کا ایک بڑا مسئلہ کمیونی کیشن کا تھا۔ نہ وہ مخالف فوج کے بارے میں انٹیلی جنس حاصل کر پائے تھے۔ نہ ہی وہ لکھنوٗ اور کانپور کے فوجیوں سے کوآرڈینیشن کر سکے تھے۔ نہ راجپوتانہ یا وسطی ہندوستان کے آزاد حکمرانوں کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کر سکے تھے۔ اگر انہیں صرف یہ معلوم ہو جاتا کہ عقب سے ان کے کئے گئے حملے کتنے کارگر رہے تھے تو دو دنوں میں برٹش فوج کا صفایا کر سکتے تھے۔ اور جتنی کمزوری ان کی سٹریٹجی اور ملٹری حکمتِ عملی کی تھی، اتنی ہی انتظامی اور مالیاتی حکمتِ عملی کی بھی۔ گڑبڑ پیدا کرنا آسان کام ہے، اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل۔ اپنے زیرِانتظام علاقوں میں گورننس قائم نہ کر سکے۔ ٹیکس اکٹھا نہ کر سکے اور سب سے بڑھ کر، خوراک کی سپلائی چین برقرار نہ رکھ سکے۔
جون سے جولائی آیا، جولائی سے اگست۔ شہر بھوکا اور پیاسا ہوتا گیا۔ جون میں برٹش نے جمنا نہر کو کاٹ دیا تھا۔ سقوں کے لائے گئے پانی پر انحصار رہ گیا تھا۔ آٹے یاْ دالوں کا شہر میں جون سے کال پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ 28 جولائی کو قادر بخش اور کشن دیال، جو میرٹھ کے سپاہیوں کے صوبے دار تھے، دربار میں شکایت لے کر آئے کہ ان کے فوجی فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اپنا سب کچھ میرٹھ چھوڑ آئے تھے اور اب سخت مشکل میں ہیں۔ نہ ان کے پاس پیسے ہیں اور نہ کوئی ادھار دیتا ہے۔ کوتوال میں دکانداروں نے شکایت کی تھی کہ انہیں پچھلا ادھار واپس نہیں ملا، وہ قرض نہیں دے سکتے۔ اور مغل یہ پیسے فوج کو دینے سے قاصر تھے۔ 14 اگست کو مدھیہ پردیش سے آنے والی نمیچ بریگیڈ نے دھمکی دی کہ اگر کھانے کو نہ ملا تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ دو صوبے دار سدھاری سنگھ اور ہیرا سنگھ شکایت لے کر بہادر شاہ ظفر کے پاس یہ شکایت لے کر آئے۔
اگست کے پہلے ہفتے میں ساڑھے سات سو سپاہی اور چھ سو جہادی واپس روانہ ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سول انتظامیہ نے پیسے جمع کرنے کی کوشش کی۔ پہلے ادھار لے کر، پھر شاہی خزانچی کی پوزیشن نیلام کر کے، پھرساہوکاروں، بنیوں، بینکاروں کو دھمکا کر۔ اسلحہ کم ہونے کا مسئلہ ایک اور بڑی انتظامی ناکامی تھی۔ دہلی میں اسلحہ بھاری مقدار میں تھا۔ انقلاب کے پہلے دس دنوں میں کسی نے اسلحہ ڈپو پر گارڈ تعینات نہیں کئے تھے۔ لوگ ہتھیار اٹھا کر لے گئے تھے۔ سب سے زیادہ یہ کام خانہ بدوش گوجروں اور میواتیوں نے کیا تھا اور یہ اس کے بعد دہلی کے لئے بڑا خطرہ بنے رہے۔
ظفر کے ڈیپریشن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک جاسوسی رقعے میں لکھا تھا، “کل دو سو تلنگے عسکری یونیفارم میں آئے کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ ان کی بیویاں اور گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے اور پریشان ہوں گے۔ اور ہمارے پاس اب کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ ہم رخصت چاہتے ہیں”۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کروا جائیں۔ انہیں پرواہ نہیں کہ کون رہتا ہے اور کون جاتا ہے۔ نہ میں نے کسی کو آنے کا کہا تھا اور نہ جانے سے روکوں گا۔ جو رہنا چاہتا ہے، رہے۔ جو جانا چاہتا ہے، جائے۔ مجھے اعتراض نہیں”۔
مولوی محمد باقر، جو بادشاہ کے بڑے سپورٹر تھے اب لکھتے ہیں کہ بادشاہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہی تھی۔
بنیے بے روزگار لوگوں سے قرض واپس وصول کرنے کے لئے تشدد کر رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے پرانی دشمنیاں اتارنے۔ کوتوال کا شہر پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
دہلی اردو اخبار، جس نے انقلابیوں کی آمد کو معجزہ کہا تھا اور انگریز کی روانگی پر مئی میں کالم لکھا تھا، اب موڈ برعکس تھا۔ “جو ہو رہا ہے، یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ ہم نے خود کو خدا سمجھ لیا اور اس کے احکامات سے روگردانی کی۔ یہ عذاب اس کی نشاہی ہے”۔ یہ 23 اگست کے اخبار باقر کا کالم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن برٹش کے خلاف فتح کی بچی کھچی امید میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ مختلف دھڑوں کے آپس کے اختلافات تھے جو بدتر ہوتے جا رہے تھے۔
نمیچ بریگیڈ اور بخت خان کے درمیان تلخ جذبات تھے۔ نمیچ نے بخت خان پر انگریزوں کا حامی ہونے کا الزام لگایا تھا جو غلط تھا۔ نمیچ کو اس پر قائل کرنے والے ہریانہ کے برٹش جاسوس غوری شنکر سکل تھے جنہوں نے ایک (جھوٹا) گواہ پیش کیا تھا جس نے بخت خان کو انگریزوں کو پیغامات بھیجتے دیکھا تھا۔ نمیچ بریگیڈ اور بریلی بریگیڈ کے درمیان یہ تلخ کلامی ظفر کے سامنے ہوئی تھی۔
بخت خان نے حملے کا ایک نیا اور اچھوتا پلان بنایا۔ اس میں یہ دکھائے جانا تھا کہ اجمیری گیٹ سے فوج کا بڑا حصہ دہلی چھوڑ کر جا رہا ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ جے پور کے رک جائے، یہ فوج نجف گڑھ کے قریب نہر کا پل پار کرے اور چھپ کر برٹش پر واپس عقب سے حملہ آور ہو۔ یہ اس قسم کی سوچ تھی جس کی کمی رہی تھی اور دو ماہ پہلے اگر یہ کیا جاتا تو بہت موثر ثابت ہوتا۔ ظفر نے اس کی حمایت کی اور جاتی ہوئی فوج کو کہا، “جاوٗ، خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔ آج اپنی وفاداری دکھا دو۔ انگریزوں کو تباہ کر کے فتح یاب ہو کر واپس آوٗ”۔
یہ چوبیس اگست کا دن تھا۔ بخت خان نے یہ سب سے بڑا حملہ کیا۔ نو ہزار آدمی اور تیرہ فیلڈ گن۔ یہ نجف گڑھ کی طرف بڑھیں۔ برسات کی موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ جب پل تک پہنچے تو پتا لگا کہ جنرل ولسن اس کو دفاعی حکمت عملی کے تحت پہلے ہی گرا چکے ہیں۔ بخت خان اس کے لئے تیار تھے۔ اس پل کی مرمت کی لیکن تربیت یافتہ افراد نہ ہونے کی وجہ سے اس میں چوبیس گھنٹے لگ گئے۔ اس دوران موسلادھار بارش میں ان کی فورس کھلے آسمان تلے تھی اور اس دوران کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔
پچیس تاریخ کو انقلابی فورس نے یہ پل پار کیا اور آگے بڑھنا بہت مشکل مرحلہ رہا۔ تھکے ہوئے فوجی جھیل کے کنارے پہنچے۔ آرام کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ساتھ لائی گئے توپیں کیچڑ میں دھنس جاتی تھیں۔ ان کو آگے لے جانا مشکل تھا۔ سپاہیوں کو گھٹنے گھٹنے پانی والی زمین میں چلنا پڑتا تھا۔ بریلی بریگیڈ سے آگے سدھاری سنگھ اور ہیرا سنگھ کی قیادت میں نمیچ بریگیڈ تھی۔ اس سے کچھ پیچھے نصیر آباد کی چھوٹی فورس۔ اس سے دو روز پہلے ہی نمیچ قیادت نے بخت خان کو قیادت سے ہٹانے کی کوشش کی تھی اور یہ سب کامیابی کے لئے اچھا کمبی نیشن نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمیچ بریگیڈ کا مقابلہ نکلسن کے فوجی دستے سے ہوا۔ بخت خان تک خبر پہنچی۔ تین روز پہلے نمیچ جنرلوں نے ان پر غداری کا الزام لگایا تھا۔ بخت کو اس بریگیڈ کو بچانے میں دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی بریگیڈ کی پیش قدمی روک دی۔ اگر نصیر آباد کا دستہ مدد نہ کرتا تو نمیچ بریگیڈ کا کوئی بھی شخص نہ بچتا۔ لیکن یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اتنی بڑی شکست انقلابی فوج کو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔
بخت خان جب واپس پہنچے تو اپنی عزت گنوا چکے تھے۔ نمیچ کے سپاہیوں کو چھوڑ جانے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان کو پیغام بھجوایا کہ انہوں نے یہ حرکت کر کے نمک حرامی کی ہے۔
جب چار ستمبر کو آٹھ میل لمبی فوجی کی کمک برٹش کیمپ میں داخل ہوئی تو گیم پلٹ چکی تھی۔ دونوں فریقین میں کسی کو شک نہیں رہا تھا کہ برٹش کی طرف سے شہر پر پوری طرح براہِ راست حملہ قریب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر میں برٹش دہلی فورس کی آمد دکھائی گئی ہے۔
ہر جگہ پر انگریزوں نے خود کو قائل کر لیا تھا کہ چونکہ انگریزوں کا قتلِ عام ہوا ہے، اس لئے انقلابیوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک روا رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اپنے مخالفین کو انسان سمجھنا بند کر دیا گیا تھا۔ کیپٹن والڈ کی ڈائری سے، “میرے لئے یہ کلوٹے سانپ اور بچھووٗں جیسے ہیں۔ ان کا واحد علاج ان کا سر کچل دینا ہے”۔
دہلی کے اندر خوراک، اسلحہ اور پیسے ختم ہو رہے تھے۔ فاقہ زدہ سپاہیوں نے دہلی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ گریٹ ہیڈ کہتے ہیں، “مجھے شہزادوں کے خط ملنے لگے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے برٹش کو پسند کرتے رہے ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں اور وہ یہ پوچھتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ اس کا جواب میں نہیں بتاوٗں گا۔ یہ انہوں نے خود کر کے دکھانا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے انقلابیوں کا ایک بڑا مسئلہ کمیونی کیشن کا تھا۔ نہ وہ مخالف فوج کے بارے میں انٹیلی جنس حاصل کر پائے تھے۔ نہ ہی وہ لکھنوٗ اور کانپور کے فوجیوں سے کوآرڈینیشن کر سکے تھے۔ نہ راجپوتانہ یا وسطی ہندوستان کے آزاد حکمرانوں کو اپنا ساتھ دینے پر آمادہ کر سکے تھے۔ اگر انہیں صرف یہ معلوم ہو جاتا کہ عقب سے ان کے کئے گئے حملے کتنے کارگر رہے تھے تو دو دنوں میں برٹش فوج کا صفایا کر سکتے تھے۔ اور جتنی کمزوری ان کی سٹریٹجی اور ملٹری حکمتِ عملی کی تھی، اتنی ہی انتظامی اور مالیاتی حکمتِ عملی کی بھی۔ گڑبڑ پیدا کرنا آسان کام ہے، اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل۔ اپنے زیرِانتظام علاقوں میں گورننس قائم نہ کر سکے۔ ٹیکس اکٹھا نہ کر سکے اور سب سے بڑھ کر، خوراک کی سپلائی چین برقرار نہ رکھ سکے۔
جون سے جولائی آیا، جولائی سے اگست۔ شہر بھوکا اور پیاسا ہوتا گیا۔ جون میں برٹش نے جمنا نہر کو کاٹ دیا تھا۔ سقوں کے لائے گئے پانی پر انحصار رہ گیا تھا۔ آٹے یاْ دالوں کا شہر میں جون سے کال پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ 28 جولائی کو قادر بخش اور کشن دیال، جو میرٹھ کے سپاہیوں کے صوبے دار تھے، دربار میں شکایت لے کر آئے کہ ان کے فوجی فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ اپنا سب کچھ میرٹھ چھوڑ آئے تھے اور اب سخت مشکل میں ہیں۔ نہ ان کے پاس پیسے ہیں اور نہ کوئی ادھار دیتا ہے۔ کوتوال میں دکانداروں نے شکایت کی تھی کہ انہیں پچھلا ادھار واپس نہیں ملا، وہ قرض نہیں دے سکتے۔ اور مغل یہ پیسے فوج کو دینے سے قاصر تھے۔ 14 اگست کو مدھیہ پردیش سے آنے والی نمیچ بریگیڈ نے دھمکی دی کہ اگر کھانے کو نہ ملا تو وہ واپس چلے جائیں گے۔ دو صوبے دار سدھاری سنگھ اور ہیرا سنگھ شکایت لے کر بہادر شاہ ظفر کے پاس یہ شکایت لے کر آئے۔
اگست کے پہلے ہفتے میں ساڑھے سات سو سپاہی اور چھ سو جہادی واپس روانہ ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سول انتظامیہ نے پیسے جمع کرنے کی کوشش کی۔ پہلے ادھار لے کر، پھر شاہی خزانچی کی پوزیشن نیلام کر کے، پھرساہوکاروں، بنیوں، بینکاروں کو دھمکا کر۔ اسلحہ کم ہونے کا مسئلہ ایک اور بڑی انتظامی ناکامی تھی۔ دہلی میں اسلحہ بھاری مقدار میں تھا۔ انقلاب کے پہلے دس دنوں میں کسی نے اسلحہ ڈپو پر گارڈ تعینات نہیں کئے تھے۔ لوگ ہتھیار اٹھا کر لے گئے تھے۔ سب سے زیادہ یہ کام خانہ بدوش گوجروں اور میواتیوں نے کیا تھا اور یہ اس کے بعد دہلی کے لئے بڑا خطرہ بنے رہے۔
ظفر کے ڈیپریشن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک جاسوسی رقعے میں لکھا تھا، “کل دو سو تلنگے عسکری یونیفارم میں آئے کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ ان کی بیویاں اور گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے اور پریشان ہوں گے۔ اور ہمارے پاس اب کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ ہم رخصت چاہتے ہیں”۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ وہ اپنے ہتھیار جمع کروا جائیں۔ انہیں پرواہ نہیں کہ کون رہتا ہے اور کون جاتا ہے۔ نہ میں نے کسی کو آنے کا کہا تھا اور نہ جانے سے روکوں گا۔ جو رہنا چاہتا ہے، رہے۔ جو جانا چاہتا ہے، جائے۔ مجھے اعتراض نہیں”۔
مولوی محمد باقر، جو بادشاہ کے بڑے سپورٹر تھے اب لکھتے ہیں کہ بادشاہ کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہی تھی۔
بنیے بے روزگار لوگوں سے قرض واپس وصول کرنے کے لئے تشدد کر رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے پرانی دشمنیاں اتارنے۔ کوتوال کا شہر پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
دہلی اردو اخبار، جس نے انقلابیوں کی آمد کو معجزہ کہا تھا اور انگریز کی روانگی پر مئی میں کالم لکھا تھا، اب موڈ برعکس تھا۔ “جو ہو رہا ہے، یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ ہم نے خود کو خدا سمجھ لیا اور اس کے احکامات سے روگردانی کی۔ یہ عذاب اس کی نشاہی ہے”۔ یہ 23 اگست کے اخبار باقر کا کالم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن برٹش کے خلاف فتح کی بچی کھچی امید میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ مختلف دھڑوں کے آپس کے اختلافات تھے جو بدتر ہوتے جا رہے تھے۔
نمیچ بریگیڈ اور بخت خان کے درمیان تلخ جذبات تھے۔ نمیچ نے بخت خان پر انگریزوں کا حامی ہونے کا الزام لگایا تھا جو غلط تھا۔ نمیچ کو اس پر قائل کرنے والے ہریانہ کے برٹش جاسوس غوری شنکر سکل تھے جنہوں نے ایک (جھوٹا) گواہ پیش کیا تھا جس نے بخت خان کو انگریزوں کو پیغامات بھیجتے دیکھا تھا۔ نمیچ بریگیڈ اور بریلی بریگیڈ کے درمیان یہ تلخ کلامی ظفر کے سامنے ہوئی تھی۔
بخت خان نے حملے کا ایک نیا اور اچھوتا پلان بنایا۔ اس میں یہ دکھائے جانا تھا کہ اجمیری گیٹ سے فوج کا بڑا حصہ دہلی چھوڑ کر جا رہا ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ جے پور کے رک جائے، یہ فوج نجف گڑھ کے قریب نہر کا پل پار کرے اور چھپ کر برٹش پر واپس عقب سے حملہ آور ہو۔ یہ اس قسم کی سوچ تھی جس کی کمی رہی تھی اور دو ماہ پہلے اگر یہ کیا جاتا تو بہت موثر ثابت ہوتا۔ ظفر نے اس کی حمایت کی اور جاتی ہوئی فوج کو کہا، “جاوٗ، خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔ آج اپنی وفاداری دکھا دو۔ انگریزوں کو تباہ کر کے فتح یاب ہو کر واپس آوٗ”۔
یہ چوبیس اگست کا دن تھا۔ بخت خان نے یہ سب سے بڑا حملہ کیا۔ نو ہزار آدمی اور تیرہ فیلڈ گن۔ یہ نجف گڑھ کی طرف بڑھیں۔ برسات کی موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ جب پل تک پہنچے تو پتا لگا کہ جنرل ولسن اس کو دفاعی حکمت عملی کے تحت پہلے ہی گرا چکے ہیں۔ بخت خان اس کے لئے تیار تھے۔ اس پل کی مرمت کی لیکن تربیت یافتہ افراد نہ ہونے کی وجہ سے اس میں چوبیس گھنٹے لگ گئے۔ اس دوران موسلادھار بارش میں ان کی فورس کھلے آسمان تلے تھی اور اس دوران کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔
پچیس تاریخ کو انقلابی فورس نے یہ پل پار کیا اور آگے بڑھنا بہت مشکل مرحلہ رہا۔ تھکے ہوئے فوجی جھیل کے کنارے پہنچے۔ آرام کرنے کا وقت نہیں تھا۔ ساتھ لائی گئے توپیں کیچڑ میں دھنس جاتی تھیں۔ ان کو آگے لے جانا مشکل تھا۔ سپاہیوں کو گھٹنے گھٹنے پانی والی زمین میں چلنا پڑتا تھا۔ بریلی بریگیڈ سے آگے سدھاری سنگھ اور ہیرا سنگھ کی قیادت میں نمیچ بریگیڈ تھی۔ اس سے کچھ پیچھے نصیر آباد کی چھوٹی فورس۔ اس سے دو روز پہلے ہی نمیچ قیادت نے بخت خان کو قیادت سے ہٹانے کی کوشش کی تھی اور یہ سب کامیابی کے لئے اچھا کمبی نیشن نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمیچ بریگیڈ کا مقابلہ نکلسن کے فوجی دستے سے ہوا۔ بخت خان تک خبر پہنچی۔ تین روز پہلے نمیچ جنرلوں نے ان پر غداری کا الزام لگایا تھا۔ بخت کو اس بریگیڈ کو بچانے میں دلچسپی نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی بریگیڈ کی پیش قدمی روک دی۔ اگر نصیر آباد کا دستہ مدد نہ کرتا تو نمیچ بریگیڈ کا کوئی بھی شخص نہ بچتا۔ لیکن یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ اتنی بڑی شکست انقلابی فوج کو پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔
بخت خان جب واپس پہنچے تو اپنی عزت گنوا چکے تھے۔ نمیچ کے سپاہیوں کو چھوڑ جانے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان کو پیغام بھجوایا کہ انہوں نے یہ حرکت کر کے نمک حرامی کی ہے۔
جب چار ستمبر کو آٹھ میل لمبی فوجی کی کمک برٹش کیمپ میں داخل ہوئی تو گیم پلٹ چکی تھی۔ دونوں فریقین میں کسی کو شک نہیں رہا تھا کہ برٹش کی طرف سے شہر پر پوری طرح براہِ راست حملہ قریب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر میں برٹش دہلی فورس کی آمد دکھائی گئی ہے۔