دہلی سے شمال میں کیپٹن رابرٹ ٹٹلر اس سے بے خبر اپنے 200 سپاہیوں کو کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ فوج میں کچھ گڑبڑ تو چل رہی ہے لیکن ...
دہلی سے شمال میں کیپٹن رابرٹ ٹٹلر اس سے بے خبر اپنے 200 سپاہیوں کو کمانڈ کر رہے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ فوج میں کچھ گڑبڑ تو چل رہی ہے لیکن کس حد تک؟ اس کا علم نہیں تھا۔ دہلی میں اور دہلی کے باہر برٹش راج تیزی سے ختم ہو رہا تھا۔ ٹٹلر کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے سپاہی میرٹھ والوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس روز اسلحہ ڈپو میں ہر کوئی معمول سے زیادہ اسلحہ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے اور کیپٹن گارڈنر نے نوٹ کیا کہ سپاہی عمارت سے دور کھڑے ہیں۔ جب انہیں قریب آنے کو کہا تھا سپاہیوں نے جواب دیا کہ انہیں دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ جب انہیں سختی سے آرڈر دیا تو ایک سپاہی نے جواب دیا کہ آپ کی سرکار ختم ہو گئی ہے۔ برٹش راج کا دور گزر گیا ہے۔ پھر سب نے ملکر نعرے لگانے شروع کر دئے، “پرتھوی راج کی جے ہو”۔ سپاہیوں کی بڑی تعداد انہیں چھوڑ کر اور اسلحہ لے کر چلی گئی۔ ان کے ساتھ چند درجن فوجی رہ گئے جو زیادہ عمر کے تھے اور افغانستان کی جنگ اکٹھے لڑی تھی۔
یہ کئی جگہ پر دہرایا جا رہا تھا۔ کئی یونٹس میں سپاہی افسروں کو سلیوٹ کرنے کے بعد الوداع کر کے جا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطار کے وقت دہلی کی گلیاں سنسان ہو گئیں۔ ظہیر دہلوی جو شاہی محل سے واپس آ رہے تھے، کہتے ہیں، “ شہر میں خاموشی تھی اور عجیب سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ گھروں اور حویلیوں کے دروازے مقفل تھے۔ روشنی کسی جگہ پر نہیں تھی۔ سڑک کے لالٹین ٹوٹے ہوئے اور ان کے شیشے بکھرے پڑے تھے۔ چاقو بنانے والے، حلوائی اور بزازوں کی دکانیں لوٹ لی گئی تھیں۔ ایک جگہ پر ایک شخص قریب المرگ کراہ رہا تھا۔ اسے تلواروں کے تین گھاوٗ لگے ہوئے تھے۔ ایک جگہ مجھے تین لوگ نظر آئے جنہوں نے ایک دھوبی کو روکا ہوا تھا۔ وہ اس کے سامان کی تلاشی لے رہے تھے کہ کوئی قیمتی شے مل جائے۔ دھوبی نے انہیں بتایا کہ فلاں جگہ پر ایک فرنگی کا گھر ہے۔ جلدی پہنچو، مال کوئی اور نہ لے جائے اور یوں دھوبی نے ان سے جان چھڑوائی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہ مئی کو دہلی برٹش سے تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ 1803 کو برٹش نے مرہٹوں کو شکست دی تھی، تب سے دہلی پر ان کے کنٹرول میں تھا۔ ایک روز میں یہ ختم ہو گیا تھا۔
بہادر شاہ ظفر نے نہ یہ انقلاب پلان کیا تھا اور نہ ہی یہ سب ان کے وہم و گمان میں تھا اور نہ ہی یہ سپاہی ان کے کنٹرول میں تھے اور نہ ہی ان کے پرتششدد طریقوں سے اتفاق کرتے تھے۔ لیکن وہ پوری طرح سے ان کے ساتھ شامل ہو چکے تھے۔ موہن لال کاشمیری لکھتے ہیں۔
“باغی اب شہر کے اور محل کے بھی مالک تھے۔ انہوں نے بادشاہ کو زور دے کر کہا تھا کہ وہ شہر کا دورہ کریں تا کہ سب کا اعتماد بحال ہو۔ بادشاہ نے پہلی بار یہ دیکھا تھا کہ ان کے ساتھ تربیت یافتہ سپاہی ہیں۔ انہوں نے شہریوں کو دیکھا جو انہیں دیکھنے امڈ آئے تھے۔ اداس اور معمول کے چہروں کے ساتھ نہیں، نعرے لگاتے ہوئے۔ یہ تبدیلی شہر میں اکثریت کو پسند آئی تھی۔ انہوں نے برٹش ناکامیوں کی خبریں سنیں۔ انہوں نے جھوٹی خبریں بھی سنیں کہ برٹش فوج فارس میں پھنس چکی ہے۔ اور یہ کہ یورپ میں سیاسی حالات کشیدہ ہو چکے ہیں اور ہندستان میں کوئی کمک نہیں آ سکے گی۔ انہیں بتایا گیا کہ ممبئی اور دکن میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی ہے۔ بہادر شاہ اب بات کو مان چکے تھے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں عظیم تیمور کے تاج اور سلطنت کی بحالی ان کے ہاتھوں ہونا ہے”۔
برٹش انڈیا میں پہلے بھی بغاوتیں ہوئی تھیں۔ سب سے بڑی ویلور میں 1806 میں۔ کئی جگہوں پر مسلح مزاحمتیں ہوئی تھیں۔ لیکن تمام برٹش دور میں برٹش سپریمیسی کو اتنا بڑا چیلنج کبھی نہیں آیا تھا۔
کمپنی کے تربیت یافتہ فوجی اور مغلوں کی تعظیم ۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ دینے کے فیصلے نے اس کو انیسویں صدی میں کسی بھی مغربی یورپی ملک کو درپیش سب سے بڑے امتحان میں بدل دیا تھا۔
بہادر شاہ ظفر کے لئے جو سوال فوری تھا کہ کیا وہ واقعی کنٹرول میں ہیں؟ یا انہوں نے صرف اپنی ڈوریاں ہلانے والے بدلے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی میں انقلاب کے دن دو ٹیلی گراف آپریٹروں، برینڈش اور پلکنگٹن نے دفتر بند کیا اور دہلی چھوڑ کر میرٹھ کی راہ لی لیکن جانے سے پہلے انہوں نے دو پیغامات بھجوائے۔ ان کا اوریجنل اس وقت لاہور میں پنجاب آرکائیو میں محفوظ ہے۔ پہلا “کینٹونمنٹ محاصرے کی حالت میں” کے عنوان سے ہے جو دوپہر کو بھیجا گیا۔ اس میں لکھا ہے۔
“میرٹھ کی تھرڈ لائٹ انفینٹری کے باغیوں نے میرٹھ سے رابطہ کاٹ دیا ہے۔ ان بلوائیوں کی تعداد نامعلوم ہے اور ڈیڑھ سو کے قریب بتائی جا رہے ہے۔ یہ کشتیوں کے پل پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔ 54ویں نارتھ انفینٹری کو ان سے لڑنے بھیجا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ کئی افسر مارے جا چکے ہیں، کئی زخمی ہیں۔ شہر میں نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے۔ کچھ فوجی بھجوائے گئے ہیں لیکن ابھی حالات غیریقینی ہیں”
دوسرا پیغام اس سے پہلے بھیجا گیا جب یہ دونوں دفتر چھوڑ کر بھاگنے لگے تھے۔
“میرٹھ کے سپاہیوں نے سارے بنگلے جلا دئے ہیں۔ وہ صبح یہاں پہنچے تھے۔ ہم یہاں سے اب جانے والے ہیں۔ چارلس ٹوڈ (جو بھیجنے والوں کے افسر تھے) کو مار دیا گیا ہے۔ وہ صبح نکلے تھے اور واپس نہیں آئے”۔
یہ ٹیلی گراف کی نئی ٹیکنالوجی کا کارنامہ تھا۔ وہ جسے غالب اس دور کا معجزہ کہتے تھے۔ یہ پیغام انبالہ بھیجا گیا اور چند گھنٹوں میں لاہور، پشاور اور شملہ تک پہنچ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمانڈر انچیف جنرل جارج اینسن کو یہ پیغام ملا تو وہ شملہ میں تھے۔ انہوں نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی ویسے ہی جیسے گولیوں پر چکنائی کے معاملے کو نہیں دی تھی۔ چار دن بعد انبالہ پہنچے تو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اس وقت ہیضے کی وبا بھی پھیلی ہوئی تھی۔ جب 27 مئی کو برٹش انڈیا کے کمانڈر انچیف کا انتقال ہیضے کی وجہ سے ہوا تو انقلاب کی یہ لہر بڑھ چکی تھی۔ نوشہرہ، انبالہ، لدھیانہ، فیروزپور، نصیر آباد، ہانسی، مراد آباد، علی گڑھ، آگرہ، مین پوری، ایتاوا، اور آگرہ کے مشرق تک سپاہیوں کے بغاوت کی خبریں آ رہی تھیں۔
نقشے میں یہ مقامات دہلی کے گرد دائرے کی شکل میں نظر آتے تھے۔ جو ہندوستان میں دور دراز تک پھیلے تھے۔ بہادر شاہ اور ان کی مغلیہ سلطنت اب امید کا مرکز تھے۔ بہت سے افراد، گروہ اور بہت سی وجوہات۔ مسلمان بھی، ہندو بھی۔ شمالی انڈیا میں سپاہی اپنے یونٹ کو چھوڑ کر سیدھا دہلی کا رخ کرتے۔ کئی جگہ پرتشدد طریقے سے اور کئی بار افسروں سے معذرت کرتے ہوئے۔
کمانڈر رچرڈ بارٹنر نے نقشے پر یہ پیٹرن دیکھتے ہوئے کہا کہ “بغاوت کا یہ نقشہ مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ اس کا مرکز دہلی ہے اور اس کے بیچوں بیچ پر جو مکڑا بیٹھا ہے، وہ بہادر شاہ ظفر ہے”۔
(جاری ہے)
ساتھ لگی تصویر میں بغاوت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔
ہلکے نیلے میں وہ علاقے جہاں پر مقامی حکمران انگریز کے ساتھ تھے۔
گاڑھے نیلے میں وہ علاقے جہاں کے حکمران باغیوں کے ساتھ تھے۔
سبز میں وہ، جہاں کے حکمران غیرجانبدار تھے۔
بھورے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی لیکن بغاوت میں عملداری ختم ہو گئی۔
پیلے رنگ میں وہ علاقے جہاں کمپنی کی براہِ راست حکومت تھی اور یہاں پر موثر بغاوت نہیں ہوئی۔