مائیکل وڈ، کیرن ڈگلس اور روبی سٹن نے بہت دلچسپ تحقیق 2012 میں کی۔ یہ تحقیق دکھاتی ہے کہ سازشی تھیوریوں پر یقین کرنے والے متضاد خیالات پر کی...
مائیکل وڈ، کیرن ڈگلس اور روبی سٹن نے بہت دلچسپ تحقیق 2012 میں کی۔ یہ تحقیق دکھاتی ہے کہ سازشی تھیوریوں پر یقین کرنے والے متضاد خیالات پر کیسے بیک وقت یقین رکھتے ہیں۔ کیا شہزادی ڈیانا کی موت حادثہ تھی؟ کئی لوگ اس کو سازش گردانتے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک۔ اگلا سوال: سازش کا مطلب کیا تھا؟ “انہیں اس روز پلان کر کے قتل کیا گیا”۔ “اس روز وہ گاڑی میں تھی ہی نہیں اور یہ جعلی تھا”۔ دونوں متضاد خیالات ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں خیالات ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتے۔ لیکن محققین نے جو سروے کئے، اس کے مطابق سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے کی بڑی تعداد کے لئے دونوں باتیں درست تھیں۔
انسانی ذہن کمپیوٹر کی طرح نہیں۔ اس کی ایک بڑی طاقت ہے کہ یہ بیک وقت متضاد خیالات سنبھال سکتا ہے۔ ایک چیز پر یقین رکھتے ہوئے بھی دوسرے اس سے مخالف خیال کو ذہن میں جگہ دے سکتا ہے۔ جہاں پر یہ وہ ذہنی صلاحیت ہے جو نظریاتی شدت پسندی کم کرتی ہے۔ دوسرے لوگوں کو سمجھنے کا طریقہ دیتی ہے۔ فکری بلوغت کے لئے ضروری ہے، وہاں اس کی ایک تاریک سائیڈ بھی ہے۔ اور وہ متضاد حقائق پر یقین رکھنا ہے جو پسندیدہ کہانی کو سپورٹ کرتے ہوں۔ بے ربط خیالات اس کی نشانی ہیں۔
یہ تحقیق کم از کم میرے لئے زیادہ اچنبھے کا باعث نہیں تھی کیونکہ اس سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ مثلاً، ایک بار ایک صاحب نے گفتگو میں چند منٹ کے اندر اندر ہی یہ دعوے کئے کہ اسامہ ایبٹ آباد آپریشن سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے اور یہ کہ انہیں اس آپریشن میں مارا ہی نہیں گیا، وہ زندہ ہیں اور یہ کہ وہ امریکہ کے ایجنٹ تھے اور یہ کہ وہ مغربی طاقتوں کے خلاف جہاد کے ہیرو تھے اور یہ کہ انہیں ایبٹ آباد میں شہید اسی لئے کیا گیا کہ وہ مغربی قوتوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے۔
صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر، یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتا۔
منطقی طور پر دیکھا جائے تو یہ خیالات الگ الگ لوگوں کے ہو سکتے ہیں، ایک شخص کے اپنے زندگی کے مختلف وقتوں میں ہو سکتے ہیں لیکن ایک ہی شخص کے ایک ہی وقت میں؟
ہماری وفاداری حقیقت سے زیادہ اپنی کہانی سے ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس کہانی سے جس سے جذباتی وابستگی ہو۔ اور یہ وہ چیز ہے جو اس بے ربطگی کو ممکن کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سازشی تھیورسٹ کا ایک اور ہتھیار یہ سوال ہوتا ہے، “فائدہ کس کو ہوا؟” جب آپ کسی جرم کے بارے میں مفروضہ قائم کر رہے ہیں تو یہ ایک قابلِ غور سوال ہوتا ہے، نہ کہ کسی چیز کی دلیل۔ کانسپریسی تھیورسٹ اس کو اپنی خاص تھیوری کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ (اس کو ٹاٹولیجی کا مغالطہ کہا جاتا ہے)۔
ہر واقعے میں فائدہ اور نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ ہر تاریخی واقعے سے بھی کسی کو فائدہ یا نقصان ہوا ہوتا ہے۔ اس کا لازم مطلب یہ نہیں کہ فائدہ اٹھانے والا ذمہ دار ہو۔ (اگر کوئی شخص انتقال کر جائے اور وراثت بیٹے کو مل جائے تو اس بات کی دلیل نہیں کہ بیٹے نے مرنے والے کو زہر دیا۔ اس کے لئے کوئی ثبوت تلاش کرنا ہو گا)۔
“بچگانہ باتیں نہ کرو۔ “اُن” کو فائدہ ہوا تو لازمی مطلب ہے کہ “وہ” ذمہ دار ہیں” ایک بے کار دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوڈ رابرٹ گرائمز نے سازشی تھیوریوں کی ریاضی کیلکولیٹ کی۔ جب سازش بڑی ہو جائے، زیادہ لوگ، زیادہ ادارے اور زیادہ برس یا دہائیاں آ جائیں تو اس کو برقرار رکھنے کے لاجسٹکس کیا ہو سکتے ہیں۔ بڑی سازشیں خود اپنے وزن تلے دب کر گر جاتی ہیں۔
گرائمز نے اپنے پیپر میں عظیم سازشوں کا فیلئیر انالسس کیا اور اس پر کہ اگر بیرونی ذرائع سے اسے کوئی بے نقاب نہ بھی کرے تو اندرونی ذرائع سے اس کے گرنے کا کتنا امکان ہے۔ یعنی کہ کوئی اندر سے بھانڈا پھوڑ دے۔
ایسا ہوتا رہا ہے۔ ایڈورڈ سنوڈن کا بے نقاب کیا گیا جاسوسی کا سکینڈل، ٹسکجی میں سائفلس کے تجربات یا ایف بی آئی فورنزک سکینڈل۔
ان کے عوامل میں کئی فیکٹر ہیں۔ کتنے لوگ ملوث ہوں گے؟ وقت کے ساتھ ساتھ کتنے لوگ تبدیل ہوتے رہیں گے؟ ہر شخص کتنا قابلِ اعتبار ہوتا ہے؟ انہوں نے اپنے اندازوں میں محتاط اعدادوشمار لئے ہیں اور کئی عظیم سازشی تھیوریوں کا تجزیہ کیا ہے۔ کینسر کا چھپایا گیا علاج۔ چاند پر لینڈنگ۔ ویکسین۔ موسمیاتی تبدیلی۔
ناسا کے اپالو پروگرام میں 411000 لوگ ناسا کا حصہ تھے۔ ویکسین کے لئے عالمی ادارہ صحت کے بائیس ہزار ملازمین ہیں۔ باقی مقامی ممالک کے لوگ۔ کینسر کے لئے 714000 افراد کی شمولیت درکار ہے۔ ان سب کو تہہ دل سے سازش کا حصہ ہونا ضروری ہے تا کہ بات باہر نہ نکلے۔
بہت ہی قابلِ اعتبار شرکاء ہوں تو ان اعداد کے مطابق چار برس سے زیادہ سازش کا کامیابی سے برقرار رہنا مشکل ہے۔ باقی تفصیلات ان کی سٹڈی سے۔ لیکن ڈین کونٹز اس کا تجزیہ ایسے کرتے ہیں کہ عظیم سازشیں تخیل میں ہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی، جو انسانوں کو جانتا ہے، یہ سمجھ سکتا ہے کہ عظیم سازش کا برقرار رہنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہم انسان ہیں۔ تفصیل کی طرف توجہ نہ دینا، گھبرا جانا اور منہ بند نہ رکھ سکنا ہماری بنیادی خاصیتوں میں سے ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نوٹ کریں تو ہم سب خود ان سازشوں پر اور ان کہانیوں پر جلد یقین کر لیتے ہیں جو ہمارے یقین سے مطابقت رکھتی ہوں۔ مثال کے طور پر، سیاست کے بارے میں آپ خود اپنا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ فلاں سیاسی لیڈر نے فلاں کام ویسے ہی کیا تھا جو وہاٹس ایپ کے ایک پیغام میں پڑھا؟ اس کو قبول کرنے کا پیمانہ لیڈر کے بارے میں پہلے سے قائم کردہ رائے ہے۔ اس رویے کے حوالے سے لبرل، کنزوریٹو، پروگریسو، آرتھوڈوکس سمیت کسی گروپ کے تناسب میں فرق نظر نہیں آتا۔ عظیم سازشی تھیوریوں کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہے، اس میں بھی نظریاتی سپیکٹرم میں ہر طرح کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ صرف کہانی اور ولن مختلف ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی حد سے زیادہ نامعقول تھیوریوں کے ماننے والوں کی بھی معقول تعداد مل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرینِ نفسیات وائرن سوامی اور ربیکا کولز نے 2010 میں اس پر تحقیق کی۔ اس کا نتیجہ یہ بتاتا ہے کہ کانسپریسی تھنکنگ کی جڑ ہماری اس دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں ہے۔ دنیا کے بارے میں ہماری انفارمیشن نامکمل ہوتی ہے اور سچ پیچیدہ۔ سازشی تھیوری اس سب کی آسان کہانی بتا دیتی ہے۔
سازشی کہانیاں ہمیں پرکشش اس لئے بھی لگتی ہیں کہ یہ اصل میں امید کی کہانیاں ہیں۔ اگر ہمارا یقین ہے کہ تمام خرابیاں کسی ایک بڑے ولن کی وجہ سے ہیں تو یہ درحقیقت اس بات پر یقین ہے کہ اس ولن کی شکست سے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
حقیقت اس سے زیادہ خوفناک ہے۔ ہماری دنیا کسی شخص، کسی ادارے، کسی نظریے، کسی تنظیم، کسی طبقے، کسی ملک یا کسی قوم کے کنٹرول میں نہیں۔ کانسپریسی تھیوریاں اس خوفناک سچ سے نجات دلوا دیتی ہیں۔
اور ایک بار اگر ہر چیز کو ان کی نظر سے دیکھنے لگیں تو مشاہدے اور منطق کے عام اصول ختم ہو جاتے ہیں۔ کوئی بھی ویسا نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ سازشی سوچ کے فینامینا کو سمجھنا ہے تا کہ یہ پہچانا جا سکے کہ یہ کیا ہیں اور ان کو کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
لیکن عظیم سازشی تھیوریوں کا سٹرکچر سمجھنا ایک ویکسین ہے، دوا نہیں۔ یعنی اس کو سمجھ کر ان سے بچا جا سکتا ہے۔۔۔ جبکہ ایک بار اگر آپ سازشی بیانیے کو واقعی دل سے قبول کر لیں ۔۔۔ اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔