Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

چاند پر انسان اور زمین کی شکل ۔ ذہن کے کرتب

شاید آپ نے کسی سے ایسا دعویٰ سنا ہو کہ انسان کبھی چاند پر نہیں گیا اور یہ سب امریکہ کا ڈرامہ تھا جو مخالفین کو اپنی خلائی ٹیکنالوجی سے مر...

شاید آپ نے کسی سے ایسا دعویٰ سنا ہو کہ انسان کبھی چاند پر نہیں گیا اور یہ سب امریکہ کا ڈرامہ تھا جو مخالفین کو اپنی خلائی ٹیکنالوجی سے مرعوب کرنے کے لئے رچایا گیا تھا۔ اور ہر بڑی سازشی تھیوری کی طرح اس دعوے کی سپورٹ میں کچھ نہیں۔ اس پروگرام میں شامل چار لاکھ افراد میں سے کبھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ کوئی سرکاری دستاویز کبھی منظرِعام پر کبھی نہیں آئی، کسی خفیہ سٹوڈیو کا سراغ نہیں ملا۔ کسی فوٹیج میں کوئی سٹیج آلات غلطی سے سامنے نہیں آئے۔

تو پھر ان سب سازشی تھیوریوں کی بنیاد کس پر ہے؟ صرف ایک بنیاد پر اور وہ انومالی کا شکار ہے۔ آسمان پر ستارے کیوں نہیں؟ خلانورد سورج کے پیچھے ہونے کے باوجود کیوں نظر آ رہے ہیں؟ سائے پیرالل کیوں نہیں؟ ان سب کی وجہ یہ ہے کہ چاند فوٹوگرافی کے لئے ہمارے لئے غیرمانوس جگہ ہے۔ ان سب کی سادہ سی وضاحتیں موجود ہیں۔ ستارے دن کی روشنی کی وجہ سے نہیں (دن میں آسمان سیاہ ہونے کی وجہ فضا کا نہ ہونا ہے)۔ سطح ہموار نہیں اس لئے سائے پیرالل نہیں۔ چاند کی سطح ریفلیکٹو ہے اسلئے وہ روشنی ہے جو سورج پیچھے ہونے کے باوجود خلانوردوں کے سامنے نظر آ رہی ہے۔

کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں امریکی جھنڈا ہوا میں پھڑپھڑاتا نظر آ رہا ہے۔ حالانکہ ہوا کی غیرموجودگی ہی تو وہ وجہ ہے کہ خلانورد کے ہلانے کے بعد یہ دیر تک لہراتا رہا۔ ہوا ہو تو یہ لہرانا جلد ماند پڑ جاتا۔

بل کیسنگ کی کتاب میں لکھے ایک اعتراض کو کئی بار دہرایا جاتا ہے کہ وین ایلن بیلٹ اور کاسمک شعاعیں خلابازوں کو مار دیتیں۔ یہ دعویٰ غلط ہے۔ اپالو 11 میں خلابازوں نے 11 ملی سیورٹ شعاعیں جذب کی تھیں۔ مہلک حد 8000 ملی سیورٹ ہے۔ جبکہ ناسا کا ٹارگٹ 1000 ملی سیورٹ سے کم رکھنا ہے۔ مریخ تک ایک سال کے یک طرفہ مشن میں یہ اس حد کے قریب پہنچ سکتا ہے جبکہ اپالو کا طویل ترین مشن تیرہ روز کا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ انامولی ان کو لگتی ہیں جن کا اس بارے میں علم نہیں ہوتا، کیونکہ چاند زمین جیسا نہیں۔ اور یہ دیکھنے والے کے لئے غیرمانوس ہے۔لیکن سازش کا کوئی نام و نشان نہ ملنے اور ان “بظاہر انومالی” کا اصل نہ ہونے کے ساتھ ایک اور مسئلہ plausibility کا ہے۔ کیوں دوسرے ممالک، جیسا کہ سوویت یونین، نے کبھی سازش کے حق میں نہ دعویٰ کیا، نہ شواہد دئے؟ اور یہ چاند سے جو پتھر لائے گئے، یہ کہاں سے آئے؟ (نہیں، یہ شہابیے نہیں ہو سکتے۔ شہابیے جب فضا سے گزرتے ہیں تو اس رگڑ کے نشان ہوتے ہیں)۔

چاند پر انسانی اشیاء کی موجودگی کے ناقابلِ تردید شواہد ہیں۔ کسی کے پاس بھی آلات اور علم ہو، وہ چاند پر لیزر کی شعاع کو ایک ریفلیکٹر پر پھینک کر خود ہی دیکھ سکتا ہے۔ سازشی تھیورسٹ کہتے رہے ہیں کہ لینڈنگ کی سائٹ کو ٹیلی سکوپ سے نہیں دیکھ سکتے؟ ان کی ریزولیوشن اتنی نہیں ہے لیکن چاند پر بھیجے گئے پروبز کی ہے۔ یہ مشن ان کی تصاویر بھی لے چکے ہیں جہاں سے خلابازوں کے چاند پر چھوڑے گئے آلات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کانسپیریسی تھیورسٹ کو ان سب کو بھی جعلی کہنا پڑتا ہے۔

اس حقیقت کے شواہد ناقابلِ تردید ہیں اور بے شمار ہیں کہ ناسا کے کئی مشن چاند پر اترے، قدموں کے نشان اور آلات چھوڑے، چاند کے پتھر لے کر اور تاریخ بنا کر واپس زمین پر پہنچے۔ لیکن اس سب کے باوجود اسی دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس سب کا انکار کرنے کے لئے بظاہر انامولی کے شکار کو اپنی ناقابلِ یقین سازشی تھیوریوں کا جواز بناتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ علم کا سفر معاشروں میں آگے کی طرف بڑھتا ہے لیکن یہ درست نہیں۔ اس کی بڑی واضح مثال اکیسویں صدی میں شروع ہونے والی ایک عجیب و غریب موومنٹ ہے۔۔ اکیسویں صدی میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو زمین کو گول نہیں بلکہ چپٹا سمجھتے ہیں۔ اور نہیں، مذاق میں ایسا نہیں کہتے، سچ مچ میں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ اور اس بارے میں اتنے پرجوش ہیں کہ فلیٹ ارتھ کنونشن میں شرکت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ باقی سب سے پہلے کانسپریسی تھیورسٹ ہیں اور یہ اپنے اس یقین کا دفاع بظاہر انومالی کی فہرست سے کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر فلیٹ ارتھرز کا دعویٰ ہے کہ اچھی دوربین سے دسیوں میل دور کے شہر دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ زمین کے کرویچر کے حساب سے افق کو اس سے زیادہ دور ہونا چاہیے تھا۔ کتنی دور نظر آنا چاہیے کا ایک جواب بلندی ہے۔ ساڑھے پانچ فٹ قد والے کے لئے یہ تقریباً تین میل دور ہونا چاہیے۔ تین سو فٹ کے ٹاور پر اکیس میل۔ (اگر فرض کیا جائے کہ سطح ہموار ہے)۔ جتنا فاصلہ دیکھا جا سکتا ہے، اس کا انحصار اونچائی پر ہے۔ چھوٹی سی پہاڑی بہت فرق ڈال سکتی ہے۔

لیکن یہ تمام وضاحت کے لئے کافی نہیں۔ ایک اور فینامینا فضا سے ریفریکشن ہے۔ فضا لینز کی طرح کام کرتی ہے کیونکہ اس کا خم زمین کی سطح کی طرح ہی خمدار ہے۔ اس خم سے ویژن کی رینج میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے اور آپ افق کے پار دیکھ سکتے ہیں۔

ریفریکشن سمیت، یہ سب کچھ انیسویں صدی میں معلوم ہو چکا تھا۔ لیکن فلیٹ ارتھر سائنس میں دو سو سال نہیں، دو ہزار سال  پیچھے ہیں۔ کشتیوں کا افق پر غائب ہو جانا، گرہن کے وقت چاند پر زمین کا پڑنے والا سایہ، الگ مقامات پر زمین میں گاڑی گئی عمودی چھڑیوں کے سائے کی ایک ہی وقت لمبائی میں فرق۔۔۔ یہ قدیم مشاہدات ہیں۔ قدیم یونانی زمین کی شکل کی گولائی کو سمجھ چکے تھے (اور نہیں، اس وقت ناسا نہیں تھی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک میرے ذاتی مشاہدے کا تعلق ہے کہ فلیٹ ارتھ بالکل لغو خیال ہے؟ وہ چلی میں کھینچی گئی چاند کی تصاویر ہیں۔ زمین کے جنوبی نصف کرے سے کھینچی گئی تصاویر میں چاند شمالی نصف کرے کے نسبت الٹ ہے۔ کیونکہ مخالف نصف کرے کی نسبت میں اس وقت الٹ تھا۔ یہ تصاویر ایسی کیوں؟ اس لئے کہ زمین گول ہے۔

اور اگر یہ سب کچھ سازش ہے تو کتنی گہری؟ اس میں کون کون شامل ہے؟ اور کیوں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند پر انسانی مشن کا انکار کرنے والے اور فلیٹ ارتھر ہمیں انسانی ذہن کے کمالات کے بارے میں سوچنے کا ایک موقع دیتے ہیں۔ یہ سوالات اہم نہیں ہیں۔ ان مثالوں میں سمجھنے کے لئے اہم چیز یہ ہے کہ انامولی کا شکار کرنے اور دوسرے ذہنی کرتبوں کی مدد سے انسان میں یہ بے پناہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ صاف چیزوں کا انکار کر دے۔ اور خود کو کسی بھی طرح کے جھوٹ پر قائل کر لے۔

اگر کہیں کوئی فلیٹ ارتھر مل جائے تو اس سے مکالمہ بہت مفید رہے گا۔ اس سے جو چیز سیکھی جا سکتی ہے، وہ زمین کی شکل نہیں، انسانی ذہن ہے۔ اگر کسی کا زعم ہے کہ فیکٹ، سچ، حقیقت ذہن کو تبدیل کر سکتے ہیں تو یہ ختم ہو جائے گا۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ ہمارے لئے خود کو سمجھنے کا ایک اچھا ذریعہ ہیں۔

ذہن کسی بھی طرح کی چیز کو قبول کرنے اور اس پر یقین کر لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسی چیزوں پر بھی جن کے بارے میں سچ جاننے کے لئے آسمان پر نگاہ ڈال لینا ہی کافی ہے۔