کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ آپ نے اڑنے والے غبارے کی سیر کی ہو؟ تحقیق بتاتی ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ یادداشت ڈالنا اتنا مشکل نہیں۔ ایک سٹڈی م...
کیا آپ کو یاد پڑتا ہے کہ آپ نے اڑنے والے غبارے کی سیر کی ہو؟ تحقیق بتاتی ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ یادداشت ڈالنا اتنا مشکل نہیں۔
ایک سٹڈی میں سائنسدانوں نے کچھ لوگوں اور ان کے فیملی کے ایک ممبر کا انتخاب کیا۔ فیملی ممبر سے انکی بچپن کی پرانی تصاویر لی گئیں جب وہ چار سے آٹھ سال کے درمیان تھے۔ ان میں سے ایک تصویر بنائی گئی جب وہ ایک اڑنے والے غبارے کی سیر کر رہے تھے۔ یہ ان کی بچپن کی اصل تصویروں کے ساتھ ملا دی گئی اور ان سے ہر تصویر کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اس وقت کو یاد کر کے بنائیں جب یہ تصویر کھینچی گئی تھی۔ اگر یاد نہیں آ رہا تو کچھ دیر کے لئے آنکھ بند کر کے یاد کرنے کی کوشش کریں۔ تین سے سات روز کے درمیان یہ عمل مزید دو بار دہرایا گیا۔ ان میں سے نصف کو اس وقت تک اس سیر کے بارے میں”یاد” آ چکا تھا۔ کئی نے اس کی تفصیلات بتائیں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تجربہ ختم ہونے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ یہ تصویر جعلی ہے تو ایک نے کہا، “لیکن یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا تھا۔ میں وہاں تھا۔ یہ جعلی کیسے ہو سکتی ہے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلط یاد پلانٹ کرنا آسان ہے۔ تجربات میں ماہرینِ نفسیات پندرہ سے پچاس فیصد لوگوں کے ساتھ یہ کامیابی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ ایک اور سٹڈی میں ان لوگوں کا انتخاب کیا گیا جو ڈزنی لینڈ گئے تھے۔ انہیں مشق میں ڈزنی لینڈ کا ایک اشتہار دیا گیا کہ وہ اس کے بارے میں سوچ کر بتائیں کہ اس اچھا اشتہار سے کیا ہے۔
اشتہار میں لکھا تھا کہ “تصور کریں جب آپ bugs bunny کو پہلی بار خود اپنی آنکھ سے دیکھیں گے۔ آپ کی والدہ آپ کو اس کی طرف دھکیل رہی ہوں گی تا کہ آپ اس سے ہاتھ ملا سکیں۔ آپ اس کے ساتھ تصویر کھنچوا سکیں گے۔ جب آپ اس کے قریب گئے تو وہ کچھ بڑا لگنے لگ گیا۔ ٹی وی پر وہ اتنا بڑا نہیں لگتا۔ یہ اس لئے کیونکہ آپ اس سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر تھے۔ آپ کا پسندیدہ کارٹون کا کریکٹر آپ کے بالکل قریب۔ آپ کا دل تیز دھڑکنے لگا، ہاتھ میں پسنہ آ گیا۔ اس کو صاف کر کے آپ نے اس سے ہاتھ ملا لیا”۔
اس مشق پر وقت صرف کرنے کے بعد جب شرکاء سے ان کے ڈزنی لینڈ کے تجربے کا پوچھا گیا تو ایک چوتھائی کو یاد تھا کہ ان کی ڈزنی لینڈ میں بگز بنی سے ملاقات ہوئی تھے۔ اور اس گروپ میں سے نصف کو ہاتھ ملانا بھی یاد تھا۔ کئی کو یہ بھی یاد تھا کہ اس نے ہاتھ میں گاجر پکڑی ہوئی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ڈزنی لینڈ میں بگز بنی نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک حریف کمپنی، وارنر برادرز، کا کریکٹر ہے، ڈزنی کا نہیں۔ (کارپوریٹ دنیا میں یہ ویسا ہے جیسے اسلام آباد میں چودہ اگست کی تقریب میں نریندر مودی پاکستان کا پرچم بلند کر رہے ہوں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری سٹڈیز میں لوگوں کو بازار میں گم ہونا، ڈوبنے سے بچائے جانا، انگلی چوہے دان میں پھنس جانا، تیز بخار کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہونا اور دوسرے تجربات کی یادیں پلانٹ کی جا چکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خیال مقبول ہوا تھا کہ لوگوں کی ماضی کے کسی ناخوشگوار واقعے کی یاد چھپی رہ جاتی ہے اور اس وجہ سے انہیں ذہنی مسائل اور بے چینی وغیرہ کا سامنا رہتا ہے۔ 1988 میں لکھی گئی مشہور کتاب “علاج کی جرات” نے اس آئیڈیا کو مشہور کیا تھا۔ اس کی بنیاد پر بہت سے افسوسناک کام ہوئے جو مینٹل ہیلتھ پروفیشن کی طرف سے ایک بڑی ناکامی تھی۔ اس تھراپی میں لوگ اپنے اوپر ماضی ہونے والا ظلم و زیادتی یا کوئی ٹراما یاد کر لیتے تھے۔ اس وجہ سے نہیں کہ یہ یاد کہیں دبی ہوئی تھی بلکہ اس وجہ سے کہ تھراپسٹ کی تجویز ایسی نئی یاد بنا دیتی تھی۔ اس طرح کے کیس میں 1990 میں ایک شخص جارج فرینکلن کو قتل پر عمرقید کی سزا صرف اس لئے ہوئی تھی کہ اس کی بیٹی کی پرانی یاد اسی طریقے سے واپس لائی گئی تھی۔ (پانچ سال بعد یہ کیس دوبارہ سنا گیا اور جارج کو رہائی ملی)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک چیز جو دلچسپ ہے، وہ یہ کہ غلط یاد پلانٹ کرنے والے تجربات کی یاد مکمل طور پر غلط نہیں ہوتی۔ جن لوگوں میں ان کا اڑنے والے غبارے کی سیر کا تجربہ پلانٹ کیا گیا تھا، اس میں اگرچہ جو تجربہ تھا، وہ تو بوگس تھا لیکن بنائی گئی تفصیلات حسیاتی اور نفسیاتی تجربات سے ہی تھیں۔ وہی کردار، وہی احساسات جو زندگی بھر کے تجربے نے سٹور کی تھیں۔ مثلاً، اگر کسی کے والد فوٹوگرافی زیادہ کرتے تھے تو اس یاد وہی فوٹوگرافر تھے۔ توقعات اور یقین تجربات سے ہی آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کچھ دیر کے لئے آنکھ بند کر کے خود اپنی بیتی زندگی کو یاد کریں۔ کچھ اہم باتیں، کچھ اہم یادیں ۔۔۔ اور تھوڑا سا توقف کریں۔۔۔ کیا کچھ یاد کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں ایسا کرتا ہوں تو جہاں کئی طرح کی یادوں کے سلسلے امڈ پڑتے ہیں، وہیں پر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ بہت کچھ یاد نہیں رہا۔ میرے دادا، جنہیں گزرے مدت ہو گئی، کبھی کبھار ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ مجھے ان کی کئی باتیں یاد ہیں، یہ یاد ہے کہ وہ بڑے شوق سے میرے سکول کی باتیں سنا کرتے تھے، شطرنج کھیلتے تھے، ان کے سر پر ٹوپی اور ان کی لاٹھی بھی یاد ہے لیکن بہت کچھ نہیں۔
کئی مناظر ذہن پر نقش ہیں۔ جب پہلی بار گاڑی خریدی اور اپنے والد کو دکھانے گیا تو مجھے اس پر خوش دیکھ کر ان کی آنکھ کی چمک اور چہرے کی مسکراہٹ یاد ہے۔
جب ایک روز گھر پہنچنے زیادہ دیر ہو گئی تھی تو والدہ کا تشویش بھرا چہرہ اور پڑنے والی ڈانٹ یاد ہے۔
اپنے بیٹے کی حادثے میں موت کی خبر سنتے وقت اپنے بھائی کے آنکھ میں امڈنے والا آنسو یاد ہے۔ بچپن میں پیچھے جاتے وقت یہ یادیں کسی آوٗٹ آف فوکس تصویر کی طرح ہوتی جاتی ہیں لیکن اس کی کچھ تصویریں بھی ذہن میں ہیں۔ چوٹ لگ جانے کے بعد والدہ کا بالوں کو سہلاتے ہوئے لوری سنانا اور اس سے تکلیف کا احساس کم ہو جانا۔ بھائیوں کے ساتھ ملکر کی گئی شرارتیں۔
اپنے بچوں کو گلے لگانا اور پیار کرنا میری عادت رہی۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ یہ بھول جائیں گے۔ نہ ہی میری توقع ہے اور نہ ہی خواہش کہ وہ یہ سب یاد رکھیں۔ لیکن مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ گلے لگانا اور یہ پیار بالکل ہی غائب نہیں ہو جائے گا۔ کم از کم مجموعی طور پر سب جمع کر کے یہ خوشگوار یادوں اور جذباتی رشتوں کی صورت میں محفوظ رہے گا۔ وقت کے لمحے خواہ ہمیشہ کے لئے بھلا دئے جائیں یا پھر کسی دھندلے عکس سے دیکھی تصویر کی طرح رہیں لیکن ان میں سے کچھ نہ کچھ شعور سے زیریں، باقی رہ جاتا ہے۔ اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے یہ ہمیں جذبات اور احساسات کا ایک وسیع ذخیرہ اس وقت اوپر آتا ہے جب ہم ان کے بارے میں سوچتے ہیں جو ہمارے دل کے قریب ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے والے بہت، بہت سے لوگوں کی یادیں جن سے ملاقات ہوئی، وہ نت نئی جگہیں، عام یا خاص، جہاں رہے یا کبھی جانا ہوا۔ ہمارا دماغ خواہ انہیں کسی پرفیکٹ طریقے سے نہیں رکھتا لیکن پھر بھی ہماری زندگی کی ایک تسلسل کے ساتھ ہماری اپنی زندگی کی کہانی بنا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیرشعوری حصہ ادھورے ڈیٹا میں کچھ ملاوٹ کرتا ہے۔ جو گمشدہ ہے، اس کو مکمل کر دیتا ہے اور ہمارے شعور کو پیش کرتا ہے۔ جب ہم اپنے سامنے بھی کوئی منظر دیکھتے ہیں اور وہ بالکل صاف فوٹوگراف کی طرح لگ رہا ہے تو اصل میں ہم اس کا بس چھوٹا سا حصہ ہی صاف دیکھ رہے ہیں۔ باقی صفائی ہمارے دماغ کا کمال ہے۔ اس کی تخلیق ہے۔
ایسا ہی کمال ہمارا دماغ یادوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اگر آپ کوئی میموری کی ڈیوائس ڈیزائن کریں تو ایسی نہیں ہو گی جو ڈیٹا کے بڑے حصے کو پھینک دے اور جب اسے دوبارہ حاصل کیا جائے تو اس میں خود کچھ ملا دے۔ لیکن ہماری میموری ڈیوائس ایسی ہی ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے یہ طریقہ کام کرتا ہے اور بہت ہی کامیابی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ہماری نوع ہی موجود نہ ہوتی، اگر یہ اتنا کامیاب نہ ہوتا۔ جو مفید ہے، وہ کافی ہے۔
یادداشت ایکوریٹ نہیں لیکن اس کا کمال اس کی ایکوریسی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی یاد کی پہچان ہمیں دو سبق سکھاتی ہے۔ انکساری کا اور شکرگزاری کا۔ انکساری اس لئے کہ میں اپنی کسی بھی یاد کے بارے میں جتنا بھی پراعتماد ہوں، میں غلط ہو سکتا ہوں۔ اور شکرگزار ان دونوں چیزوں کا۔ اس کا بھی جو یاد رہا اور اس کا بھی جو بھول گیا۔ شعوری یادداشت اور احساس، یادداشت کےمعجزے کے لئے مسلسل جاری غیرشعوری پراسسنگ کے محتاج ہیں۔
اگرچہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا تحفہ نئی یادیں بنا لینے کی صلاحیت ہے لیکن جب ہم اسی طرح کچھ فارغ وقت میں گزری باتوں کو یاد کرتے ہیں تو نہ صرف انہیں دہرا سکتے ہیں بلکہ محسوس بھی کر سکتے ہیں۔ اداسی اور پچھتاوے، مسرت اور اطمینان ان سے وابستہ ہے۔ یادداشت کا یہ تحفہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اس سب خوشی اور غمی، مشکلات اور آسانیوں، ناکامیوں اور کامیابیوں کے درمیان، کتنے شاندار لوگوں کے ساتھ ۔۔۔۔ ہم نے کتنی بھرپور زندگی گزاری ہے۔