ہماری یادداشت کا نظام غلطیاں کرتا ہے اور بہت سی کرتا ہے۔ بھول جانا، جزوی اور غلط یادیں، یہ اس کے لئے نارمل ہے۔ اتنی ناقابلِ اعتبار یادداش...
ہماری یادداشت کا نظام غلطیاں کرتا ہے اور بہت سی کرتا ہے۔ بھول جانا، جزوی اور غلط یادیں، یہ اس کے لئے نارمل ہے۔ اتنی ناقابلِ اعتبار یادداشت کے باوجود ہم زندہ کیسے ہیں؟ ہماری نوع معدوم کیوں نہیں ہو گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے کام کے لئے یہ پرفیکٹ ہے۔ ہمارے بائیولوجیکل سسٹم کی پرفیکشن زندہ رہنے کی مشین کے طور پر ہے، نہ کہ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈر کے طور پر۔
خطرہ کہاں ہے اور کس سے ہے؟ کیا اس شخص پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ مچھلی اچھی کہاں سے ملے گی؟ گھر پہنچے کا ٹھیک اور محفوظ راستہ کونسا ہے؟ یہ مفید سوالات ہیں جن کے جواب دینا یادداشت کا فنکشن ہے۔ دنیا سے ڈیٹا کے موصول ہوتے ہوئے منہ زور دریا میں سے یاد کے فنکشن نے متعلقہ حصوں کو چھاننا ہے۔ ہم پر جتنی زیادہ انفارمیشن برس رہی ہے، اسے ہینڈل نہیں کیا جا سکتا۔ ہیومن فزیولوجی کی ایک نصابی کتاب کے مطابق انسانی حسیات کا سسٹم دماغ کو 11 ملین بِٹ فی سیکنڈ بھیجتا ہے۔ (کتاب کا نام “The Nervous System in the Context of Information Theory”) اور اب ایک مسئلہ ہے۔
ہمیں یاداشت میں سے ڈیٹا فوری طور پر چاہیے۔ رفتار اہم ہے، نہ کہ ایکوریسی۔ فرض کیجئے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب کی ہے۔ دو گھنٹے تک یہ دعوت جاری رہی۔ اب اس محفل کی اگر ہر چیز کو یادداشت میں فٹ کر دیا جائے تو یہ مسکراہٹوں، کسی کی مونچھ پر لگے شربت اور ڈائپروں کا ایک بڑا وئیر ہاوس بن جائے گا جو مفید نہیں ہو گا۔ اس لئے تجربے میں سے اہم پہلو یاد میں رہ جائیں گے جبکہ بہت کچھ نکل جائے گا۔ “کس کی قمیض کا رنگ اور کالر کا ڈیزائن کیسا تھا۔ کس نے علیک سلیک کس طرح کی تھی۔ کونسا بچہ رویا تھا، کس نے چیخ ماری تھی۔ چیونٹیاں میز پر کیسے چڑھ رہی تھیں”۔ آپ کو ان کی پرواہ نہیں اور آپ اس طرح کی ہر تفصیل یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ ذہن کو جو چیلنج درپیش ہے، وہ اس میں سے معنی والے حصوں کو چھانٹ کر ذخیرہ کرنا ہے اور یہ شعور سے نیچے نیچے ہی طے ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو آپ انفارمیشن میں گم ہو جائیں گے۔ آپ کو درخت نظر آئیں گے، جنگل نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ چھلنی نہ لگی ہو؟ روس کے ماہرِ نفسیات اے آر لوریا نے اس پر ایک شخص کی تیس سال تک سٹڈی کی۔ سلمان شیرشوسکی کچھ بھی نہیں بھولتے تھے۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا تھا، مکمل تفصیلات کے ساتھ انہیں یاد تھا۔ ایک بار لوریا نے ان سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں پوچھا جو لوریا کے گھر میں ہوئی تھی۔ شیرشوسکی نے اس اپارٹمنٹ کی تفصیلات، فرنیچر کی ترتیب کا بتا دیا۔ اور یہ کہ لوریا نے کیا پہنا ہوا تھا۔ لوریا نے انہیں ستر الفاظ کی فہرست دی تھی۔ پندرہ سال بعد لوریا نے ان الفاظ کو بغیر غلطی کے دہرا دیا۔
کمال؟ کیا آپ ایسی یادداشت کے خواہشمند ہوں گے؟ شیرشوسکی کی یادداشت کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ یہ صلاحیت انہیں چیزوں کو سمجھنے میں آڑے آتی تھی۔ شیرشوسکی کو چہروں کی پہچان میں مسئلہ تھا۔ ہم سب جب کسی کے چہرے کو ذہن میں یاد کرتے ہیں تو اس کی تفصیل کا ایک خاکہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں اس خاکے سے میچ کر کے شخص کو پہچاننے میں دشواری نہیں ہوتی۔ شیرشوسکی کی یادداشت اتنی زیادہ تفصیل سنبھال لیتی تھی کہ انہیں اس میں مسئلہ تھا۔ چہرے کا تاثر، اس پر پڑنے والی روشنی۔ ایک چہرے کے درجنوں ورژن یادداشت میں تھے۔ انہیں پہچاننے میں ڈھونڈنے کے لئے ایک وسیع ذخیرے سے اس کو تلاش کرنا پڑتا تھا۔
شیرشوسکی کے ساتھ زبان میں بھی ایسا مسئلہ تھا۔ وہ الفاظ کو سن کر بعینہٰ دہرا دیتے تھے۔ لیکن ان سے ملکر جو فقرہ بن رہا ہے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہاں پھنس جاتے تھے۔ یہ بھی درخت اور جنگل والا مسئلہ تھا۔
ماہرینِ لسانیات زبان کے دو الگ سٹرکچرز کا بتاتے ہیں۔ ایک سطحی اور دوسرا گہرا۔ سطحی کا مطلب کہ کوئی آئیڈیا بیان کیسے کیا جا رہا ہے۔ الفاظ کیا ہیں اور الفاظ کی ترتیب کیا ہے۔گہرے سٹرکچر کا مطلب اس آئیڈیا کا مرکزی خیال ہے۔ ہم اس مسئلے کو ایسے حل کرتے ہیں کہ تفصیل کو ہٹا کر مرکزی خیال یاد رکھ لیتے ہیں۔ یعنی جو کہا گیا، اس کا مطلب کیا تھا۔ سطحی سٹرکچر آٹھ سے دس سیکنڈ کے اندر ہی یاد سے محو ہو جاتا ہے۔ گہرا سٹرکچر دیر تک رہتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ ہم آسانی سے دہرا سکتے ہیں کہ فلاں شخص کہہ کیا رہا تھا۔ لیکن دہراتے ہوئے الفاظ ہمارے اپنے ہوتے ہیں۔ (ہماری یہی صلاحیت کئی بار غلط فہمیوں کا باعث بھی بنتی ہے کیونکہ بات کا مطلب سمجھتے ہوئے ہم اپنی ججمنٹ کا استعمال کرتے ہیں اور کسی سے ایسے الفاظ منسوب کرتے ہیں جو اس نے کبھی کہے ہی نہیں تھے اور اعتماد رکھتے ہیں کہ ہم نے ایسا ہی سنا تھا)۔
شیرشوسکی سطحی سٹرکچر یاد رکھتے تھے جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ یہ تفصیلات انہیں گہرے سٹرکچر کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی تھیں۔ شیرشوسکی نے بہت کوشش کی لیکن نہ بھولنے کے مرض سے کبھی چھٹکارا نہ پا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ابھی ابھی یہ مضمون پڑھا ہے لیکن ابھی سے اس کی کئی باتیں بھول چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ مزید بھولتے جائیں گے۔ اور اگر یہ مضمون آپ کی دلچسپی کا ہے تو اس کے کچھ اہم نکات ذہن میں رہ جائیں اور اگر نہیں، تو شاید کچھ عرصے میں یہ بھی بھول جائیں کہ ایسا کچھ کبھی پڑھا بھی تھا۔
لیکن گھبرائیے مت۔ یہ یادداشت کی کمزوری نہیں، اس کی طاقت ہے۔ اور نہیں، اپنی (یا کسی کی بھی) یادداشت کے درست ہونے پر زیادہ اعتبار مت کیجئے۔ آپ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈر نہیں ہیں۔ اور نہیں، اپنی (یا کسی کی بھی) یادداشت کے درست ہونے پر زیادہ اعتبار مت کیجئے۔ آپ آڈیو اور ویڈیو ریکارڈر نہیں ہیں۔