یہ ایک عام خیال ہے کہ کسی بھی چیز کے ڈیزائن کا بہترین طریقہ وہ ہے جس میں پہلے سے سب کچھ طے کر کے رکھ لیا جائے۔ جبکہ فطرت ہمیں اس کا بالکل ا...
یہ ایک عام خیال ہے کہ کسی بھی چیز کے ڈیزائن کا بہترین طریقہ وہ ہے جس میں پہلے سے سب کچھ طے کر کے رکھ لیا جائے۔ جبکہ فطرت ہمیں اس کا بالکل الٹ جواب دیتی ہے۔ بائیولوجی اور ایکوسسٹم جیسے انتہائی پیچیدہ، مسلسل بدلتے اور ڈھلتے حالات میں بھی بہت کامیاب ہی سسٹم کے ڈیزائن سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ (فطرت کو صرف اپنے محدود ذہن سے دیکھنا ایک بڑا گہرا اور پرانا مغالطہ ہے)۔ ڈیزائن کا بہترین طریقہ وہ ہے جس میں تبدیلی عام ہو۔ ناکامی زیادہ ہو لیکن ناکامی کی بیخ کنی جلد ہو جائے۔ سب سے پائیدار، دیرپا اور پیچیدہ لیکن کامیاب ڈیزائن کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے جو کام کرتا ہے۔ ایسے ڈیزائن جو بدلتی دنیا سے مطابقت رکھ سکیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ بہت سے ویری انٹ اپنائے جائیں، ان میں سے کامیاب بڑھیں گے۔ ویری انٹ بنانے کے بغیر اور ناکامیاں ختم کئے بغیر کامیاب سسٹم کا تصور نہیں۔ فٹنس کے لینڈسکیپ سے مطابقت جس طرح پرندوں کا بہترین ڈیزائن کر سکتی ہے ویسے ائیر لائن چلانے کے کامیاب طریقوں تک بھی پہنچا سکتی ہے۔
کامیابی کا مطلب نشیب و فراز والی زمین میں چوٹی تک پہنچنا ہے۔ حیاتیاتی ایکوسسٹم کی طرح اکانومی اور سوشل نظاموں میں بھی منظر بدلتا ہے، چوٹیاں اپنی جگہ بدلتی ہیں۔ کچھ تیزی سے اور کچھ آہستہ۔ وہی جو پہلے کام کرتا تھا، اب نہیں۔ کوڈاک کا کامیاب ترین بزنس اس لئے غائب ہو گیا کہ وہ جس چوٹی پر تھی، ڈیجیٹل کیمرہ کی آمد سے وہی سرک گئی۔ بزنس میں مک ڈونلڈ ایک اور چوٹی پر ہے جو آہستہ حرکت کر رہی ہے۔ گوگل ایک اور چوٹی پر ہے جو نئی ہے۔ اس کی آمد پچھلی ڈویلپمنٹ، جیسا کہ انٹرنیٹ یا کمپیوٹر، کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ (ویسے جیسے درختوں کی آمد کی وجہ سے گلہریوں کی آمد ممکن ہوئی)۔ گوگل کی چوٹی تیزی سے حرکت میں ہے ۔ اس بزنس کو کم عرصہ ہوا ہے۔ یہ ویسے ہے جیسے پانی کی اونچی لہر پر سرفنگ کی جائے۔ گوگل ابھی تک یہ کامیابی سے کر رہا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے جیسا باہر سے دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔
ارتقا کا عمل اس سے زیادہ ہوشیار ہے جتنا ہمارا خیال ہے اور یہ ہوشیاری کسی چیز کو برقرار رکھنے اور نیا تجربہ کرنے کے توازن میں ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیکن کبھی بڑی چھلانگ جو رنگ کی پگمنٹ ہی بدل دے۔ ان کے اور غلطیاں صاف کرتے جانے کے عمل کا کمبی نیشن کام کرتا ہے۔
کافمین اور جان ہالینڈ پیچیدگی کے تھیورسٹ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ بغیر طے شدہ سمت کے ہونے والا ارتقائی عمل دریافت کے عمل کا محض ایک طریقہ نہیں ہے، بہترین طریقہ نہیں ہے بلکہ بدلتی دنیا میں یہ واحد طریقہ ہے۔ اور اس میں چھوٹی چھوٹی تبدیلی اور بڑی چھلانگ کا کمبی نیشن لینڈسکیپ کے مطابق مسائل حل کرنے اور دریافت کرنے کا طریقہ ہے جو فطرت اربوں سال سے بہت ہی کامیابی سے کر رہی ہے۔
جس طرح بائیولوجی میں ڈیزائن کا طریقہ میوٹیشن اور سلیکشن ہے، ویسے بہترین نظام اور بزنس تک پہنچنے کا طریقہ تجربات کرنا اور ناکام تجربات کو ختم کر دینا ہے (ناکام اداروں کی جلد معدومیت معیشت کی کامیابی ہے)۔ اگر کوئی شاندار حل مل بھی جائے اور کسی ایسے ایسے بڑے حل کی طرف اگر آہستہ آہستہ بڑھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم وہاں پہنچیں گے، منزل بدل چکی ہو گی۔ “وہ جو آج کام کرتا ہے” کافی ہے۔
اچھے آئیڈیا نقل ہو جاتے ہیں۔ برے آئیڈیاز کو اس ادارے کی مینجمنٹ بند کر دیتی ہے۔ یا اگر نہ کرے تو اس ادارے کا وقت پر اور جلد دیوالیہ ہو جانا اس آئیڈیا کو ختم کر دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایسے خیالات ہمارے وجدان کے برعکس ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اداروں کے سربراہ کوئی کرشمے دکھانے والی صفت رکھتے ہیں جو اداروں کو کامیاب کرتے ہیں۔ اور کامیاب لیڈروں کے خصائص پر بہت سی کتابیں بکتی ہیں۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس سے زیادہ نابینا ہیں جتنا سمجھتے ہیں۔
بدلتی دنیا میں ٹرائل اور ایرر ضروری ہیں۔ دوسری طرف، ہم عام طور پر اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ آخر کون ایسے سیاستدان کو ووٹ دے گا جو ایسا طریقہ اپنانے کا کہے (سیاستدان کو تو پہلے سے ہی ہر مسئلے کا حل پتا ہونا چاہیے)۔ کس کمپنی میں ایسے مینجر کو ترقی دی جائے گی جو مختلف چیزیں آزماتا رہے۔ جارج بُش کا “ہر قیمت پر اپنے راستے پر رہنے” کا اعلان ان کی خوبی سمجھا گیا۔ ان کے مخالف صدارتی امیدوار پر flip flop ہونے کا الزام ان کی کمزوری سمجھا گیا، خود ان کے حامیوں میں بھی۔ اور وہ اس “کمزوری کے الزام” کی تردید کرتے رہے۔ مارگریٹ تھیچر کا کہنا تھا، “جس نے موڑ لینا ہے لے لے، یہ خاتون مڑنے والی نہیں”۔ ٹونی بلئیر کا کہنا تھا کہ “میرے پاس ریورس گئیر نہیں ہے”۔ ثابت قدم رہنے کا دعوٰی کرنے والے انتخابات میں کامیاب رہے۔
ہم غلطی کرنے کو کوئی کمزوری سمجھتے ہیں۔ اس سے سیکھنے کے بجائے چھپانے اور انکار کرنے کا طریقہ اپناتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود سے بھی۔ غلطی نہ کرنے کا تو سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کچھ کیا ہی نہ جائے۔ کمزوری غلطی کرنا نہیں بلکہ غلطی کرنا یہ بتاتا ہے کہ کچھ کیا تو ہے۔ کمزوری غلطی سے نہ سیکھنا ہے۔
ثابت قدم رہنے والے اور غلطی کی اجازت نہ دینے والے سسٹم کے طور پر سوویت یونین کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ بائیولوجیکل معدومیت کی طرح اس کو معدوم ہوتے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لئے چیلنج آسان نہیں۔ مسائل جتنے پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہوں۔ تجربے اور غلطی کا طریقہ اتنا کارآمد ہوتا ہے۔ کسی بھی متبادل سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ اپروچ نہ صرف ہماری جبلت سے متضاد ہے۔ بلکہ روایتی طور پر تشکیل کردہ ہائیرارکی والے اداروں کے بھی۔
لیکن فطرت سے سیکھ کر اس تکنیک کو ہم اپنی زندگیوں میں بھی اور بڑے مسائل کے حل کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تجربہ نہ کرنا اور انہیں مسلسل نہ کرتے رہنا اور غلطیوں کی صفائی نہ کرتے رہنا ۔۔۔ ناکامی کی اور معدوم ہو جانے کی گارنٹی ہے۔
اس پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے
Adapt: Tim Harford
کامیابی کا مطلب نشیب و فراز والی زمین میں چوٹی تک پہنچنا ہے۔ حیاتیاتی ایکوسسٹم کی طرح اکانومی اور سوشل نظاموں میں بھی منظر بدلتا ہے، چوٹیاں اپنی جگہ بدلتی ہیں۔ کچھ تیزی سے اور کچھ آہستہ۔ وہی جو پہلے کام کرتا تھا، اب نہیں۔ کوڈاک کا کامیاب ترین بزنس اس لئے غائب ہو گیا کہ وہ جس چوٹی پر تھی، ڈیجیٹل کیمرہ کی آمد سے وہی سرک گئی۔ بزنس میں مک ڈونلڈ ایک اور چوٹی پر ہے جو آہستہ حرکت کر رہی ہے۔ گوگل ایک اور چوٹی پر ہے جو نئی ہے۔ اس کی آمد پچھلی ڈویلپمنٹ، جیسا کہ انٹرنیٹ یا کمپیوٹر، کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ (ویسے جیسے درختوں کی آمد کی وجہ سے گلہریوں کی آمد ممکن ہوئی)۔ گوگل کی چوٹی تیزی سے حرکت میں ہے ۔ اس بزنس کو کم عرصہ ہوا ہے۔ یہ ویسے ہے جیسے پانی کی اونچی لہر پر سرفنگ کی جائے۔ گوگل ابھی تک یہ کامیابی سے کر رہا ہے لیکن یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے جیسا باہر سے دیکھنے والے کو نظر آتا ہے۔
ارتقا کا عمل اس سے زیادہ ہوشیار ہے جتنا ہمارا خیال ہے اور یہ ہوشیاری کسی چیز کو برقرار رکھنے اور نیا تجربہ کرنے کے توازن میں ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیکن کبھی بڑی چھلانگ جو رنگ کی پگمنٹ ہی بدل دے۔ ان کے اور غلطیاں صاف کرتے جانے کے عمل کا کمبی نیشن کام کرتا ہے۔
کافمین اور جان ہالینڈ پیچیدگی کے تھیورسٹ ہیں، جو بتاتے ہیں کہ بغیر طے شدہ سمت کے ہونے والا ارتقائی عمل دریافت کے عمل کا محض ایک طریقہ نہیں ہے، بہترین طریقہ نہیں ہے بلکہ بدلتی دنیا میں یہ واحد طریقہ ہے۔ اور اس میں چھوٹی چھوٹی تبدیلی اور بڑی چھلانگ کا کمبی نیشن لینڈسکیپ کے مطابق مسائل حل کرنے اور دریافت کرنے کا طریقہ ہے جو فطرت اربوں سال سے بہت ہی کامیابی سے کر رہی ہے۔
جس طرح بائیولوجی میں ڈیزائن کا طریقہ میوٹیشن اور سلیکشن ہے، ویسے بہترین نظام اور بزنس تک پہنچنے کا طریقہ تجربات کرنا اور ناکام تجربات کو ختم کر دینا ہے (ناکام اداروں کی جلد معدومیت معیشت کی کامیابی ہے)۔ اگر کوئی شاندار حل مل بھی جائے اور کسی ایسے ایسے بڑے حل کی طرف اگر آہستہ آہستہ بڑھنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو مسئلہ یہ ہے کہ جب تک ہم وہاں پہنچیں گے، منزل بدل چکی ہو گی۔ “وہ جو آج کام کرتا ہے” کافی ہے۔
اچھے آئیڈیا نقل ہو جاتے ہیں۔ برے آئیڈیاز کو اس ادارے کی مینجمنٹ بند کر دیتی ہے۔ یا اگر نہ کرے تو اس ادارے کا وقت پر اور جلد دیوالیہ ہو جانا اس آئیڈیا کو ختم کر دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایسے خیالات ہمارے وجدان کے برعکس ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اداروں کے سربراہ کوئی کرشمے دکھانے والی صفت رکھتے ہیں جو اداروں کو کامیاب کرتے ہیں۔ اور کامیاب لیڈروں کے خصائص پر بہت سی کتابیں بکتی ہیں۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس سے زیادہ نابینا ہیں جتنا سمجھتے ہیں۔
بدلتی دنیا میں ٹرائل اور ایرر ضروری ہیں۔ دوسری طرف، ہم عام طور پر اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ آخر کون ایسے سیاستدان کو ووٹ دے گا جو ایسا طریقہ اپنانے کا کہے (سیاستدان کو تو پہلے سے ہی ہر مسئلے کا حل پتا ہونا چاہیے)۔ کس کمپنی میں ایسے مینجر کو ترقی دی جائے گی جو مختلف چیزیں آزماتا رہے۔ جارج بُش کا “ہر قیمت پر اپنے راستے پر رہنے” کا اعلان ان کی خوبی سمجھا گیا۔ ان کے مخالف صدارتی امیدوار پر flip flop ہونے کا الزام ان کی کمزوری سمجھا گیا، خود ان کے حامیوں میں بھی۔ اور وہ اس “کمزوری کے الزام” کی تردید کرتے رہے۔ مارگریٹ تھیچر کا کہنا تھا، “جس نے موڑ لینا ہے لے لے، یہ خاتون مڑنے والی نہیں”۔ ٹونی بلئیر کا کہنا تھا کہ “میرے پاس ریورس گئیر نہیں ہے”۔ ثابت قدم رہنے کا دعوٰی کرنے والے انتخابات میں کامیاب رہے۔
ہم غلطی کرنے کو کوئی کمزوری سمجھتے ہیں۔ اس سے سیکھنے کے بجائے چھپانے اور انکار کرنے کا طریقہ اپناتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود سے بھی۔ غلطی نہ کرنے کا تو سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ کچھ کیا ہی نہ جائے۔ کمزوری غلطی کرنا نہیں بلکہ غلطی کرنا یہ بتاتا ہے کہ کچھ کیا تو ہے۔ کمزوری غلطی سے نہ سیکھنا ہے۔
ثابت قدم رہنے والے اور غلطی کی اجازت نہ دینے والے سسٹم کے طور پر سوویت یونین کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ بائیولوجیکل معدومیت کی طرح اس کو معدوم ہوتے زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے لئے چیلنج آسان نہیں۔ مسائل جتنے پیچیدہ اور الجھے ہوئے ہوں۔ تجربے اور غلطی کا طریقہ اتنا کارآمد ہوتا ہے۔ کسی بھی متبادل سے بہتر ہوتا ہے۔ یہ اپروچ نہ صرف ہماری جبلت سے متضاد ہے۔ بلکہ روایتی طور پر تشکیل کردہ ہائیرارکی والے اداروں کے بھی۔
لیکن فطرت سے سیکھ کر اس تکنیک کو ہم اپنی زندگیوں میں بھی اور بڑے مسائل کے حل کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ تجربہ نہ کرنا اور انہیں مسلسل نہ کرتے رہنا اور غلطیوں کی صفائی نہ کرتے رہنا ۔۔۔ ناکامی کی اور معدوم ہو جانے کی گارنٹی ہے۔
اس پر تفصیل سے پڑھنے کے لئے
Adapt: Tim Harford