کچھ دیر پہلے آپ نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ وہ فیصلہ اس پوسٹ کو پڑھنے کا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فیس بک نے اس کو آپ کی نیوز فیڈ میں دکھایا ہو یا ای...
کچھ دیر پہلے آپ نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ وہ فیصلہ اس پوسٹ کو پڑھنے کا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ فیس بک نے اس کو آپ کی نیوز فیڈ میں دکھایا ہو یا ایسے مضامین پڑھنا آپ کی روٹین کا حصہ ہو۔ جو بھی تھا، امید ہے کہ یہ ایک آسان فیصلہ تھا۔ لیکن اس آسان انتخاب کے لئے جو انفارمیشن پراسس ہوئی ہے، وہ سادہ نہیں۔ مضمون کا عنوان دیکھنا اور انگلی سے اس کو کلک کرنا اور پھر ٹانگیں پسار کر اس کو پڑھنے کے لئے تیاری۔۔۔ اس سب کے پیچھے کیمیائی اور الیکٹریکل پراسسز کا ایک سمندر تھا۔ ان کی جڑ اعصابی نظام میں تھی۔ لیکن آپ ایک پیچیدہ جاندار ہیں۔ انتخاب کا بوجھ سادہ ترین زندگی پر بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یک خلوی یوکارئیوٹ (پروٹسٹ) کی ٹانگیں اور بازو نہیں لیکن اس کو بھی کام کرنے ہیں، نئی جگہوں پر جانا ہے، خوراک ڈھونڈنی ہے اور یہ سب کام اس نے دماغ کے بغیر کرنے ہیں۔ بے چارہ ایک خلیہ ہے اور اس نے زندگی کی تمام پیچیدگیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
کسی مائیکروبائیولوجسٹ کے لئے خوردبین کے نیچے ان کا ماحول کے حساب سے ری ایکشن دینا بہت ہی دلچسپ نظارہ ہے۔ 1906 میں ہربرٹ سپنسر جیننگز نے “چھوٹے جانداروں کے طریقے” کے نام سے کتاب شائع کی۔ اس میں “پیرامیشیم کا معمول” اور “انفوزریا کا برقی جھٹکے سے ری ایکشن” جیسے مضامین تھے۔ ایک مضمون سٹینٹر (stentor) کے بارے میں تھا کہ وہ کارمین (Carmen) نامی سرخ ڈائی دیکھ کر کیسا ردِ عمل دکھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تجربہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ تالاب یا جھیل کے پانی میں سے سٹینٹر حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ مقابلتاً بڑے سائز کے یک خلوی جاندار ہیں۔ ان کو خوردبین کے نیچے رکھیں اور ایک بال کے ذریعے چھیڑیں۔ یہ ردِ عمل دیں گے۔ مثلاً سکڑ جائیں گے۔ کچھ دیر بعد واپس اپنے سائز پر آ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اس کو نظرانداز کرنے کی کوشش کریں کہ یہ حملہ آور (بال) خود ہی تھوڑی دیر بعد چلا جائے گا۔ اس میں ناکامی کے بعد یہ جگہ بدلنے کی کوشش کریں گے۔
تنگ کرنے والی چیز سے بچنے کا ری ایکشن (avoidance reaction) بڑا حیران کن مشاہدہ ہے۔ پروٹسٹ یہ کام کرتے ہیں۔ کچھ آرگنزم روشنی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس حصے پر روشنی ڈالی جائے گی، یہ اس سے ہٹ کر دوسری طرف چلے جائیں گے۔
سٹینٹر کی دلچسپ خاصیت روشنی سے حساس ہونا ہے۔ اس ایک خلیے میں ایک پگمنٹ کے دانے ہیں جو روشنی سے حساس ہیں۔ ان کو سٹینٹورین کہا جاتا ہے۔ روشنی کی موجودگی میں ان میں برقی چارج بنتا ہے جو اس کے پلازمہ کی ممبرین میں تبدیلی لے کر آتا ہے۔ سیلیا (اس کے باہر بال جیسے ریشے) کی حرکات میں تبدیلی آتی ہے اور یہ جاندار روشنی سے دور چلا جاتا ہے۔
کچھ ایسے پروٹسٹ ہیں جن کو روشنی پسند ہے۔ فوٹوسنتھیسز کرنے والے، جو اپنی خوراک کے لئے روشنی پر منحصر ہیں۔ ان سب کا ردِ عمل بڑا نفیس قسم کا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ ہمیشہ زیادہ روشنی والی جگہ پر جائیں گے۔ اگر روشنی اچانک آ جائے یا بہت زیادہ ہو تو یہ سایہ دار جگہ کو پناہ لینے کے لئے ڈھونڈتے ہیں۔
ایک اور آرگنزم، پیرامیشیم، سائنسدانوں کو اپنی چھپی ہوئی پیچیدگیوں کی وجہ سے بہت پسند ہے۔ یہ ایک بڑے ہجوم میں بھی چلتے پھرتے وقت ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنا پسند نہیں کرتے۔ سامنے کوئی آ جائے تو راستہ بدل لیتے ہیں اور یہ حرکات ان کے سیلیا کے تال میل سے ہوتی ہیں۔ سیلیا کی حرکت کی سمت بدلنے سے جاندار اپنی سمت بدل لیتا ہے۔ اور یہ صرف ایک فیصلہ نہیں۔ یہ موڑ کاٹ سکتے ہیں، گھوم سکتے ہیں، رک سکتے ہیں یا پھر الٹا چل سکتے ہیں۔ اس سب کا مشاہدہ بہت ہی پرلطف ہے۔ اور یہ ہمیں حیران کرتا ہے کہ صرف ایک خلیہ کیسے یہ سب کچھ کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسا نہیں کہ یہ ری ایکشن محض ماحول میں تبدیلی کے ساتھ پروگرام شدہ ہے۔ یہ سیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ جیننگز نے دریافت کیا تھا کہ انہوں نے کارمین سے بچنے کے لئے نئی حکمتِ عملی ڈھونڈنا شروع کی۔ یہ پانی کو اپنے سیلیا کے ذریعے دور ہٹانے کی تھی۔ اپنے “منہ” سے پانی تھوکنے کی تھی۔ جب اس نے کام نہیں کیا تو جسم کو سکیڑ لیا۔ اور جب اس نے بھی کام نہیں کیا تو اپنا گھر چھوڑ کر چلے جانے کی تھی۔ ایسے پانیوں میں جہاں کارمین کم تھی۔ اس میں کلیدی مشاہدہ کیا ہے؟ ایسا نہیں کہ سٹینٹر صرف محرک پر ردِ عمل دے رہے تھے بلکہ ممکنہ ردِعمل کی ایک ہائیرارکی تھی جس میں ایک ایک کر کے طریقوں کو استعمال کر رہے تھے۔
اگر اس کا موازنہ بلی سے کریں۔ ایک بچہ اسے اپنی گود میں لینا چاہتا ہے اور اسے یہ پسند نہیں۔ پہلے یہ سادہ حربے استعمال کرے گی۔ پھر غرائے گی یا پنجہ مارے گی۔ پھر بھاگ کر کونے میں چلی جائے گی کہ اس کو تنگ نہ کیا جائے۔
سٹینٹر کے تیز پنجے تو نہیں لیکن وہ بھی اسی قسم کا ردِ عمل ایک ہائیرارکی کی صورت میں دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیننگز کی کتاب اور مشاہدے نے سو سال تک توجہ حاصل نہیں کی۔ یہاں تک کہ جیری گوناوردھنے نے اس پر فالو اپ سٹڈی کی۔ اور ان کی ٹیم نے ان تجربات کو سٹینٹر روزیلی کی نوع پر دہرایا اور اسی قسم کے نتائج دیکھے۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ؟ ایک ہی نوع کے الگ جانداروں کے ری ایکشن ایک جیسے نہیں تھے۔ ہر ایک کی اپنی “شخصیت” تھی۔ ترجیحات کی اپنی رینکنگ تھی۔ کچھ صرف سکڑتے تھے۔ کچھ گھوم کر اپنی ریشوں کو مخالف سمت میں حرکت دیتے تھے۔ کچھ جلد ہی ہار مان کر جگہ چھوڑ دیتے تھے۔ بعض کچھ دیر تک انتظار کرتے تھے۔
اور ایک بار گھر چھوڑ دیا تو نئے گھر جانا ہے۔ نئے گھر کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی جمع شدہ مواد چاہیے جس کو پکڑ کر رہ سکیں۔ اس کو پہلے یہ چھو کر محسوس کرتے ہیں۔ اگر جگہ پسند نہ آئے تو الٹے پاوٗں (سیلیا) واپس چلے جاتے ہیں۔ کئی بار واپس آ کر بار بار چیک کرتے ہیں جیسے کوئی خریدار مہنگا گھر خریدنے سے پہلے بار بار جائزہ لیتا ہے۔ اور جب تسلی ہو گئی تو ایک چپکنے والا مادہ خارج کر کے اس جگہ پر رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر یہ زندگی نہیں، تو پھر زندگی کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سادہ ترین جانداروں کے لئے بھی فیصلہ کرنا پیچیدہ گتھیاں سلجھانا ہے۔ اس کے لئے انہیں حسیات کی ضرورت ہے۔ روشنی ڈیٹکٹ کرنے کی، چھونے کی ۔۔۔ ردِ عمل کے پروگراموں کی ۔۔۔ یادداشت کی تا کہ یہ یاد رکھ سکھیں کہ پہلے کیا کیا تھا۔ کیا نیا کیا جا سکتا ہے۔ ان کی بھی انفرادیت ہے۔ اور پھر انتخاب کی اہلیت ہے۔ انتخاب ۔۔ جو انہیں زندہ رکھتے ہیں۔
گوناوردھنے کا یہ پیپر 5 دسمبر 2019 کو شائع ہوا۔ اس کے مصنف اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے پاس اس کی وضاحت نہیں کہ ایک خلیے کی سطح پر یہ فیصلے کس طرح لئے جا سکتے ہیں لیکن خلیے کی سطح پر یہ پیچیدہ فیصلوں پر تحقیق ڈویلپمنت بائیولوجی اور کینسر ریسرچ جیسے شعبوں میں بھی نئے راستے کھول سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے فیصلہ کیا تھا۔ اس پوسٹ کو مکمل پڑھنے کا۔ اور اس وجہ سے آپ یہاں تک ہیں۔ آپ اس کو درمیان میں ادھورا بھی چھوڑ سکتے تھے۔ کچھ اور بھی پڑھ سکتے تھے۔ اس کو پڑھ کر جو بھی ردِ عمل ہو گا، اس میں آپ کا انتخاب بھی ہو گا۔ لیکن آپ کی زندگی میں کئے جانے والے انتخابات کا تجزیہ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اس کے درمیان میں دماغ جیسا پیچیدہ آلہ آ جاتا ہے۔
لیکن سٹینٹر اور پیرامیشیم جیسے ایک خلیے کے جاندار ہمیں موقع دیتے ہیں کہ ہم زندگی کے بارے میں اس بڑے ہی اہم معمے کو حل کرنے کی طرف پیشرفت کر سکیں۔
آخر، یہ انتخاب کیا ہے؟
اس پر آرٹیکل
https://phys.org/news/2019-12-single-celled-mind.html