Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ابتدا ۔ زندگی (21)

شروعات۔۔۔  سائنس کے تین بڑے سوال اس بارے میں ہیں۔ کائنات کی، زندگی کی اور شعور کی۔ ان میں سے پہلے سوال کے جواب کا تعلق تو لازماً کوانٹم مکی...


شروعات۔۔۔  سائنس کے تین بڑے سوال اس بارے میں ہیں۔ کائنات کی، زندگی کی اور شعور کی۔ ان میں سے پہلے سوال کے جواب کا تعلق تو لازماً کوانٹم مکینکس سے ہے۔ تیسرا کا بھی ممکن ہے، لیکن کیا دوسرے کا؟ اس کے لئے ہمیں پہلے تجزیہ کرنا پڑے گا کہ کوانٹم مکینکس کو اگر الگ رکھ دیا جائے تو کیا زندگی کی ابتدا کی مکمل وضاحت کرنا ممکن بھی ہے؟

زندگی اتنے مختلف طرز کی کیوں ہے؟ یہ سب انواع کیسے؟ اس کی بہت اچھی وضاحت تو نظریہ ارتقا سے ہو جاتی ہے۔ لیکن ابتدا بڑا اور حل طلب مسئلہ ہے۔ سائنسدان، فلسفی اور دوسرے زندگی کی ابتدا کی وضاحت کے لئے بہت سے خیالات عرصے سے پیش کرتے رہے ہیں۔ پینسپرمیا (خلا سے آئی زندگی) جیسے خیالات بھی، جن میں کسی دیومالائی قصے سے زیادہ فرق نہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں روسی سائنسدان الیگزینڈر اوپارین اور برطانوی سائنسدان ہالڈین نے خیال پیش کیا کہ گرم تالاب میں کیمیائی پراسس جاندار مادے کی تخلیق کا سبب بنے۔ اس کو اوپارین ہاڈین مفروضہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق زمین کی ابتدائی فضا میں ہائیڈروجن، میتھین اور آبی بخارات کی بہتات تھی۔ بجلی، شمسی شعاوٗں اور آتش فشانی حرارت سے ایکسپوز ہونے سے سادہ نامیاتی مادے بنے۔ قدیم سمندر میں یہ جمع ہوتے رہے اور ایک نامیاتی سُوب بنتا گیا جو لاکھوں سال پانی میں پھرتا رہا۔ شاید کیچڑ کے آتش فشانوں پر بھی۔ یہاں تک کہ بدلتے مادے کی کمبی نیشن سے ایک نیا مالیکیول نکلا جس کی ایک غیرمعمولی خاصیت تھی۔ اپنے آپ کو کاپی کر لینے کی۔ یہ قدیم ریپلی کیٹر زندگی کی ابتدا کا سب سے اہم واقعہ تھا۔ اس کے کاپی بنانے کے طریقے میں غلطیوں کی کمزوری فطری چناوٗ سے دور ہوئی۔ جو کامیاب رہے، انہوں نے زیادہ کاپیاں چھوڑیں۔ اور یوں یہ ریپلی کیٹر بہتر ایفی شینسی اور پیچیدگی کی طرف بڑھے۔ انہوں نے اضافی مالیکیول پکڑے۔ جیسا کہ پیپٹائیڈ۔ انزائم بنیں۔ کچھ چھوٹے سے تھیلوں میں پکڑی گئیں۔ ان کے گرد چربی کی ممبرین بنی جو اس کو باہر کے ماحول سے الگ کرتی تھیں۔ اس کے اندر کا ماحول بائیوکیمیکل ٹرانسفورمیشن سپورٹ کر سکتا تھا۔ میٹابولزم اپنے لئے بائیومالیکیول بنا سکتا تھا۔ اس کو برقرار رکھ لینے کی صلاحیت اور ماحول سے الگ رکھ لینے کی صلاحیت نے پہلے زندہ خلیے کو جنم دیا۔

اوپارین ہالڈین مفروضے نے زندگی کی ابتدا کا پہلا سائنسی فریم ورک فراہم کیا۔ یہ تھیوری کئی دہائیوں تک کسی بھی ٹیسٹ کے بغیر رہی۔ یہاں تک کہ دو امریکی کیمیادانوں نے اس کی طرف توجہ دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیرولڈ یوری نے نوبل انعام 1934 میں ڈیوٹریم کی دریافت کی وجہ سے حاصل کیا تھا۔ سٹینلے ملر شکاگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے تھے جب انہوں نے یوری کا زندگی کی ابتدا کے بارے میں لیکچرسنا۔ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی کے لئے اس پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک پانی کی بوتل میں ابتدائی دنیا کا ماحول بنایا گیا۔ میتھین، ہائیڈروجن، امونیا، آبی بخارات۔ اور اس میں بجلی کے سپارک۔ حیران کن طور پر صرف ایک ہفتے میں امینو ایسڈ نمودار ہو گئے۔ یہ پروٹین بننے کے بلڈنگ بلاک ہیں۔ 1953 میں ملر کا شائع کردہ پیپر تہلکہ خیز تھا۔ اور اس کو لیبارٹری میں زندگی کی تخلیق کا پہلا قدم کہا گیا اور بائیولوجی میں ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔

خیال تھا کہ یہ امینو ایسڈ پولیمرائز ہو کر پیپٹائیڈ اور پیچیدہ پروٹین بن سکتے ہیں۔ صرف بڑا سمندر اور وقت درکار ہے اور یوں ریپلی کیٹر بن سکتے ہیں۔ 1953 سے لے کر آج تک ملر یوری کا تجربہ بہت سی جگہوں پر بہت سے سائنسدان بہت مختلف اجزاء کے ساتھ کر چکے ہیں۔ کئی اقسام کے توانائی کے ذرائع اور کئی اقسام کے مکسچر۔ نہ صرف امینو ایسڈ بلکہ شوگر بھی اور کچھ مقدار میں نیوکلئیک ایسڈ بھی پیدا کیا جا چکا ہے۔ لیکن اوپارین ہالڈین کے قدیم ریپلی کیٹر نظر نہیں آئے۔ وہ کیوں؟ اس کے لئے ہمیں اس کو زیادہ قریب سے دیکھنا ہو گا۔

پہلا مسئلہ پیچیدگی ہے۔ ملر کے تجربے کی بڑی دریافت غیرنامیاتی مواد سے نامیاتی مادے کی تخلیق تھی لیکن نتیجے میں جو شے بنتی ہے، وہ پیچیدہ اور گاڑھا سیاہ مادہ ہے۔ آرگینک کیمسٹ اس سے واقف ہیں۔ جب کیمیکل ری ایکشن کنٹرول نہ ہو تو اس قسم کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ جب ہانڈی جل جائے تو دیگچی کے نیچے چپکا سیاہ مواد یہی مادہ ہے۔ اس میں بہت سے کمپاوٗنڈز کا جنگل پیدا ہوتا ہے، جس میں سے اپنے مطلب کا بہت کم مواد ہے اور یہ مواد (مثلاً، امینو ایسڈ) دوسرے کیمیکلز کے ساتھ ری ایکشن کر کے گُم ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے اناڑی باورچی اور ہزاروں انڈرگریجویٹ کیمسٹری کے طالبعلم یہ نامیاتی مادہ صدیوں سے بنا رہے ہیں (جس کا نتیجہ صفائی کا مشکل کام نکلتا ہے)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تصور کریں کہ دنیا کی تمام جلی ہوئی ہانڈیوں سے چپکا مادہ کھرچ کر ان سے کھرب ہا کھرب پیچیدہ نامیاتی مالیکیولز کو حاصل کرکے سمندر کے سائز کے پانی کے حجم میں ڈال کر کیچڑ والے آتش فشاں کو توانائی کا ذریعہ دے کر، تھوڑا سا برقی شعلہ دیتے رہیں اور اس کو ہلاتے رہیں تو زندگی بناتے ہوئے کتنی دیر انتظار کرنا ہو گا؟ اس کے جواب کی طرف آنے سے پہلے کچھ پس منظر۔

سادہ ترین زندگی اسی کیمیائی مواد کی طرح غیرمعمولی طور پر پیچیدہ ہے۔ لیکن اس کیمیائی مواد کے برعکس بہت ہی زیادہ منظم ہے۔ کیمیائی مواد سے منظم زندگی کی طرف آنے میں مسئلہ یہ ہے کہ قدیم زمین کی رینڈم تھرموڈائنامک فورسز کسی بھی ابھرتی تنظیم کی مدد نہیں کرتیں بلکہ اس کو تباہ کر دیتی ہیں۔

سادہ ترین جاندار مائیکوپلازما بیکٹیریا ہے۔ (اسی بیکٹیریا کے ساتھ وینٹر نے 2010 میں مصنوعی زندگی کا کامیاب تجربہ کیا تھا) لیکن یہ سادہ ترین مخلوق بھی بے انتہا پیچیدہ ہے۔ اس کے جینوم میں پانچ سو جینز ہیں جو اتنی ہی پیچیدہ پروٹین، ڈی این اے، آر این اے، خلیاتی ممبرین، کروموزوم اور ہزاروں سٹرکچر بناتی ہیں اور ہر سٹرکچر اتنا نفیس ہے جتنا گاڑی کا انجن۔ اور مائیکوپلازما آزاد نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک طفیلی ہے۔ اگر یہ بن بھی جاتا تو کسی قدیم نامیاتی سُوپ میں برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے لئے سادہ ترین سائنوبیکٹیریا کو دیکھنا ہو گا جو اپنے بائیوکیمیکل خود پیدا کر سکتا۔ لیکن اب یہ مائیکوپلازما سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ دو ہزار جینز والا یہ بیکٹیریا بنانے کے لئے ہمیں سمندر میں چمچ کتنا عرصہ گھمانا پڑے گا؟ اس سے نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ہمیں ان سے کہیں زیادہ سادہ ریپیلی کیٹر درکار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سادہ ریپلی کیٹر کیسے تھے؟ کیسے کام کرتے تھے؟ اس کے لئے ہمیں خلیے کے اندر دیکھنے سے مدد نہیں ملتی کیونکہ اس کا کوئی الگ حصہ کاپی نہیں بناتا۔ اب سوال یہ آ جاتا ہے کہ ڈی این اے پہلے آیا، آر این اے یا انزائم؟ اس کا ایک ممکنہ حل امریکی بائیوکیمسٹ تھامس سیچ نے پیش کیا (ان کا نوبل انعام کیمسٹری میں 1989 میں تھا)۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آر این اے کے کچھ مالیکیول جینیاتی انفارمیشن بھی کوڈ کرتے ہیں اور ری ایکشن میں مدد کرنے والی انزائم کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال رائیبوزوم ہیں۔ یہ مرغی اور انڈے کا نا ختم ہونے والا چکر توڑ سکتا تھا اور یوں آر این اے ورلڈ مفروضہ وجود میں آیا۔ یہ تجویز کرتا ہے کہ ابتدا میں کیمائی سنتھیسز نے آر این اے مالیکیول بنایا جو جین بھی تھا اور انزائم بھی۔ خود اپنا کوڈ بھی رکھتا تھا اور خود تقسیم بھی ہو سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بار ناکام رہا ہو گا اور پھر کہیں اس نے بہت سے میوٹنٹ بنائے ہوں گے اور وقت کے ساتھ ان میں سے کسی نے پروٹین کی بھرتی کی ہو گی اور ریپلی کیشن کی ایفیشنسی بہتر کی ہو گی اور یوں ڈی این اے اور خلیے تک بات پہنچی۔

اپنے کاپی بنا لینے والے آر این اے کے مالیکیول سے ڈی این اے تک جانے کا یہ خیال اب زندگی کی ابتدا کی تحقیق کا مرکزی ڈوگما ہے۔ رائبوزوم کئی اہم پراسس کر سکتے ہیں۔ ایک بار سیلف ریپلی کیشن شروع ہو جائے تو پھر نیچرل سلیکشن کا عمل کام دکھا سکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ زمین پر زندگی کسی فزیکل پراسس کے نتیجے میں ایک مرتبہ شروع ہوئی ہے (ورنہ آپ اس وقت یہ مضمون نہ پڑھ رہے ہوتے) لیکن کیا آر این اے ورلڈ ہائپوتھیسز یا جینیٹکس فرسٹ ہائیپوتھیسز زندگی کی ابتدا کا جواب دے سکتے ہیں؟

یہاں پر ایک بڑا مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)