پہلا نوبل انعام جو کس سفید فام کو نہیں گیا، اسے جیتنے والے سائنسدان ہندستان کے چندراشیکر وینکٹ رامن تھے جنہوں نے یہ انعام فزکس میں 1930 میں...
پہلا نوبل انعام جو کس سفید فام کو نہیں گیا، اسے جیتنے والے سائنسدان ہندستان کے چندراشیکر وینکٹ رامن تھے جنہوں نے یہ انعام فزکس میں 1930 میں جیتا تھا۔ انہوں نے پانی کے رنگ کی وجہ روشنی کا مالیکول سے ٹکرا کر پھیلنے کا خیال پیش کیا تھا۔ رامن کا پیشکردہ خیال یہ تھا کہ کبھی کبھار روشنی ٹکرا کر اِن الاسٹک طریقے سے پھیلتی ہے۔ فوٹون مالیکیولر بانڈ کو توانائی منتقل کر دیتے ہیں اور یہ جھنجھنا اٹھتے ہیں۔ اس سے فوٹون کی فریکونسی کم ہوتی ہے اور رنگ نیلے سپیکٹرم کی طرف چلا جاتا ہے اور یہ سمندر کے نیلگوں ہونے کی وجہ ہے۔ آج کیمسٹ اس اصول کو استعمال کرتے ہوئے مالیکیولر سٹرکچر کا پتا لگاتے ہیں۔ روشنی ڈال کر اس کے سپیکٹرم کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور یہ اس کیمیکل کا رامن سپیکٹرم کہلاتا ہے۔
ڈائیسن بو کی حس کے مکینزم کی تلاش میں تھے۔ جب انہیں رامن کے کام کا علم ہوا تو ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ناک بھی سپیکٹروسکوپ تو نہیں جو کیمیکل بانڈ کی فریکونسی کے دستخط کی شناخت کرتی ہے۔ ان کے خیال کو تقویت سے ملتی تھی کہ ایسے تمام مرکبات جن میں سلفر اور ہائیڈروجن کا بانڈ تھا (مرکیپٹن)، ان کی فریکونسی ایک خاص رینج میں تھی اور سب سے سڑے ہوئے انڈوں کی بو آتی تھی۔
ڈائنسن کی تھیوری بو کے تجزیے کی وضاحت تو کرتی تھی لیکن کسی کو کوئی اندازہ بھی نہیں تھا کہ ناک رامن سپیکٹروسکوپی کیسے کر سکتی ہے۔ یہ کام تو روشنی ڈال کر ہوتا ہے جبکہ ناک میں تو روشنی کا کوئی سورس ہی نہیں۔ ایک دوسری کمزوری اس وقت نظر آئی جب معلوم ہوا کہ اگر مالیکیول ایک دوسرے کے معکوس ہوں تو رامن سپیکٹروسکوپی کے ذریعے ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن ناک یہ کام کر لیتی ہے۔ (لیمونین اور ڈائی پینٹین اس کی مثال ہیں۔ ایک کی بو کھٹی جبکہ دوسری کی تارپین کے تیل جیسی ہے)۔
ان کمزوریوں کے سبب ڈائیسن کا کام پس منظر میں چلا گیا اور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں تالے اور چابی کے تھیوری ہی غالب رہی۔ باوجود اس کے کہ اس میں اپنی کمزوریاں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکل کی بنیاد پر پہچان کو سمجھنا ہمارے لئے آسان ہے کیونکہ ہمیں اس جیومیٹری کا سامنا عام رہتا ہے۔ دستانہ پہنتے ہوئے، تالے میں چابی لگاتے ہوئے، پانے سے پیچ ٹائٹ کرتے ہوئے۔ انزائم، انٹی باڈی، ہارمون ریسپٹر اور دوسرے بائیومالیکیول اپنی جیومٹری کے وجہ سے تعاملات کرتے ہیں۔ اس وجہ سے شکل کی بنیاد پر تھیوری کی مقبولیت رہی۔
اگرچہ ہماری حسِ بصارت اور سماعت کا انحصار وائبریشن فریکونسی پر ہے لیکن وائبریشن کی بنیاد پر ناک سے پیغام کی وصولی دور کی کوڑی لگتی تھی۔ اس کو تبدیل رکنے والے لبنانی سائنسدان لیوکا ٹیورن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وائبریشنل سپیکٹرم اور خوشبو میں مماثلت محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ٹیورن نے پہلی بار اس کے لئے ایک ممکنہ مالیکیولر مکینزم پیش کیا۔ ان کی پیش کردہ کوانٹم وائبریشنل تھیوری میں یہ طریقہ کوانٹم اِن الاسٹک ٹنلنگ کا تھا۔ اگر کوانٹم ٹنل کرتے وقت دینے والے اور لینے والے کے توانائی کے لیول میں فرق ہو تو الیکٹرون کو چھلانگ لگانے کے لئے کچھ توانائی چھوڑنا پڑے گی۔ اس توانائی نے کہیں پر جانا ہے ورنہ الیکٹران سرنگ نہیں بنا سکتا۔ یہ ٹنلنگ الاسٹک نہیں اور یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے الیکٹران اپنے کوانٹم سفر کے دوران مالیکولر بانڈ کے موسیقی آلے پر ایک تار چھیڑ دے۔ ٹیورن نے کہا کہ یہ وہ تار ہے جس کا چھیڑنا وہ تارپیڈو فائر کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم لیموں کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں۔ سلفر ہائیڈروجن بانڈ کی فریکوئنسی بورون ہائیڈروجن بانڈ کے قریب ہے (76 ٹیرا ہرٹز)، ٹیورن کی تھیوری کی پیشگوئی کے مطابق ان کی بو ایک جیسی ہونی چاہیے۔ بورین وہ واحد مالیکول ہیں جن میں سلفر نہیں اور ان کی بو سڑے ہوئے انڈے جیسی ہی ہے۔
ٹیورن کی تھیوری ممکن تو تھی لیکن کیا یہ ٹھیک تھی؟
ٹیورن نے اپنے تجربے کے لئے ایسیٹوفینون کا انتخاب کیا۔ اس کی خوشبو مالٹے کے تازہ پھل جیسی ہے۔ اگر اس میں موجود ہائیڈروجن کے ایٹموں کو ہائیڈروجن کے آئسوٹوپ سے تبدیل کر دیا جائے؟ شکل اور کیمیائی بانڈ بالکل وہی رہتے ہے لیکن بھاری ہائیڈروجن کی وجہ سے وائبریشن فریکونسی کا سپیکٹرم تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے بو تبدیل ہو جائے تو اس کا مطلب یہ کہ ٹیورن کا دعویٰ درست تھا۔
اب ایک مسئلہ تھا۔ سونگھ کر بتائے گا کون؟ اس کے لئے انحصار کس پر کیا جائے؟ ناکوں کی اس گرما گرم لڑائی میں مسئلہ یہ کہ انسانوں کی توقعات نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایم آئی ٹی کی ایک ٹیم نے اس کے لئے بہتر نوع کا انتخاب کیا۔ یہ لیبارٹری کی فروٹ فلائی تھیں۔ ان کے لئے دو شاخہ راستہ بنایا گیا۔ ایک شاخ میں ایسیٹوفینون ڈالی گئی۔ تقریباً تمام مکھیوں نے اس سمت جانے کا انتخاب کیا۔ اگلے تجربات میں ہائیڈروجن کے تین، پانچ اور آٹھ ایٹموں کو بھاری ہائیڈروجن سے تبدیل کیا گیا۔ اور نتائج واضح تھے۔ ہائیڈروجن کے تین ایٹموں کی تبدیلی سے ہی مکھیوں کی ترجیح ختم ہو گئی تھی۔ مکھیوں کی قوتِ شامہ ان میں تفریق کرتی تھی۔
مزید کیمیکل اور مزید تجربات وائبریشن تھیوری کے حق میں ہی آئے۔ یہ سٹڈی نیشل اکیڈمی آف سائنس کے جرنل میں 2011 میں شائع ہوئی۔
اگلا سوال: مکھیاں تو آئسوٹوپ کو سونگھ کر الگ کر لیتی ہیں۔ لیکن کیا انسان بھی؟ رضاکاروں پر کئی گئے تجربات نے اس سوال کا جواب بھی ہاں میں دے دیا۔
کوانٹم وائبریشن تھیوری اب تھیوریٹیکل بنیادوں پر بھی مضبوط بنیادوں پر ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی فزسٹ کی ٹیم کی کی گئی کوانٹم کیلکولیشن سے مطابقت رکھتی ہے، لیکن یہ کیس ابھی بند نہیں ہوا۔ ماڈل کا ڈیٹا پر فٹ ہو جانا کافی نہیں۔ اگرچہ تجرباتی شواہد اس کے حق میں ہیں۔ فوٹوسنتھیسز، تنفس، انزائم ایکشن وغیرہ کے برعکس ابھی کوانٹم ٹنلنگ کے مظہر کو براہِ راست ٹیسٹ نہیں کیا جا سکا۔ لیکن ابھی تک اِن الاسٹک کوانٹم ٹنلنگ کے علاوہ کوئی بھی اور ممکنہ وضاحت موجود نہیں جو بتا سکتی ہو کہ پروٹین ارتعاش کی فریکونسی کا پتا کیسے لگا سکتے ہیں۔
ابھی اس معمے کا نامعلوم حصہ اولفیکٹری ریسپٹر کے سٹرچر کا معلوم کرنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنی قدرتی حالت میں یہ خلیاتی ممبرین کے اندر ویسے ہوتے ہیں جیسے سمندر میں جیلی فش۔ اگر ان کو اپنی جگہ سے نکال دیا جائے تو شکل برقرار نہیں رکھتے اور ابھی خلیے کی ممبرین کے اندر پروٹین کے سٹرکچر کو جاننے کا طریقہ معلوم نہیں۔
اگرچہ یہ معاملہ ابھی طے نہیں ہوا لیکن لگتا یہی ہے کہ کوانٹم اِن الاسٹک ٹنلنگ خوشبو کے معمے کا جواب ہے۔ نہ صرف مکھیوں اور انسانوں میں بلکہ کیڑوں اور مچھلیوں میں بھی تجرباتی لحاظ سے ثابت ہو چکا ہے کہ آئسوٹوپ کی بنیاد پر ان کی حسِ شامہ کیمیکل کو الگ کر لیتی ہے۔ کوانٹم ناک اگر ان انواع میں ہے تو یہ جانداروں میں بہت زیادہ عام ہے۔ انسانی مکھی، اینیمون مچھلی اور دوسرے جاندار شاید الیکٹرون کی ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ نمودار ہونے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے مادی دنیا کے پیغامات وصول کر رہے ہیں۔ خوراک کے لئے، ساتھی کے لئے اور گھر کا راستہ تلاش کرنے کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناک کا ایک اور اہم استعمال ہے۔ سانس اندر کھینچیں اور باہر نکالیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دوران میں کیا ہوا؟ ہوا کا اندر جانا اور باہر نکلنا ایک بہت لمبے عمل کا پہلا اور آخری قدم تھے۔
(جاری ہے)
ڈائیسن بو کی حس کے مکینزم کی تلاش میں تھے۔ جب انہیں رامن کے کام کا علم ہوا تو ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں ناک بھی سپیکٹروسکوپ تو نہیں جو کیمیکل بانڈ کی فریکونسی کے دستخط کی شناخت کرتی ہے۔ ان کے خیال کو تقویت سے ملتی تھی کہ ایسے تمام مرکبات جن میں سلفر اور ہائیڈروجن کا بانڈ تھا (مرکیپٹن)، ان کی فریکونسی ایک خاص رینج میں تھی اور سب سے سڑے ہوئے انڈوں کی بو آتی تھی۔
ڈائنسن کی تھیوری بو کے تجزیے کی وضاحت تو کرتی تھی لیکن کسی کو کوئی اندازہ بھی نہیں تھا کہ ناک رامن سپیکٹروسکوپی کیسے کر سکتی ہے۔ یہ کام تو روشنی ڈال کر ہوتا ہے جبکہ ناک میں تو روشنی کا کوئی سورس ہی نہیں۔ ایک دوسری کمزوری اس وقت نظر آئی جب معلوم ہوا کہ اگر مالیکیول ایک دوسرے کے معکوس ہوں تو رامن سپیکٹروسکوپی کے ذریعے ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا لیکن ناک یہ کام کر لیتی ہے۔ (لیمونین اور ڈائی پینٹین اس کی مثال ہیں۔ ایک کی بو کھٹی جبکہ دوسری کی تارپین کے تیل جیسی ہے)۔
ان کمزوریوں کے سبب ڈائیسن کا کام پس منظر میں چلا گیا اور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں تالے اور چابی کے تھیوری ہی غالب رہی۔ باوجود اس کے کہ اس میں اپنی کمزوریاں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکل کی بنیاد پر پہچان کو سمجھنا ہمارے لئے آسان ہے کیونکہ ہمیں اس جیومیٹری کا سامنا عام رہتا ہے۔ دستانہ پہنتے ہوئے، تالے میں چابی لگاتے ہوئے، پانے سے پیچ ٹائٹ کرتے ہوئے۔ انزائم، انٹی باڈی، ہارمون ریسپٹر اور دوسرے بائیومالیکیول اپنی جیومٹری کے وجہ سے تعاملات کرتے ہیں۔ اس وجہ سے شکل کی بنیاد پر تھیوری کی مقبولیت رہی۔
اگرچہ ہماری حسِ بصارت اور سماعت کا انحصار وائبریشن فریکونسی پر ہے لیکن وائبریشن کی بنیاد پر ناک سے پیغام کی وصولی دور کی کوڑی لگتی تھی۔ اس کو تبدیل رکنے والے لبنانی سائنسدان لیوکا ٹیورن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وائبریشنل سپیکٹرم اور خوشبو میں مماثلت محض اتفاق نہیں ہو سکتی۔ ٹیورن نے پہلی بار اس کے لئے ایک ممکنہ مالیکیولر مکینزم پیش کیا۔ ان کی پیش کردہ کوانٹم وائبریشنل تھیوری میں یہ طریقہ کوانٹم اِن الاسٹک ٹنلنگ کا تھا۔ اگر کوانٹم ٹنل کرتے وقت دینے والے اور لینے والے کے توانائی کے لیول میں فرق ہو تو الیکٹرون کو چھلانگ لگانے کے لئے کچھ توانائی چھوڑنا پڑے گی۔ اس توانائی نے کہیں پر جانا ہے ورنہ الیکٹران سرنگ نہیں بنا سکتا۔ یہ ٹنلنگ الاسٹک نہیں اور یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے الیکٹران اپنے کوانٹم سفر کے دوران مالیکولر بانڈ کے موسیقی آلے پر ایک تار چھیڑ دے۔ ٹیورن نے کہا کہ یہ وہ تار ہے جس کا چھیڑنا وہ تارپیڈو فائر کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم لیموں کی خوشبو سونگھ سکتے ہیں۔ سلفر ہائیڈروجن بانڈ کی فریکوئنسی بورون ہائیڈروجن بانڈ کے قریب ہے (76 ٹیرا ہرٹز)، ٹیورن کی تھیوری کی پیشگوئی کے مطابق ان کی بو ایک جیسی ہونی چاہیے۔ بورین وہ واحد مالیکول ہیں جن میں سلفر نہیں اور ان کی بو سڑے ہوئے انڈے جیسی ہی ہے۔
ٹیورن کی تھیوری ممکن تو تھی لیکن کیا یہ ٹھیک تھی؟
ٹیورن نے اپنے تجربے کے لئے ایسیٹوفینون کا انتخاب کیا۔ اس کی خوشبو مالٹے کے تازہ پھل جیسی ہے۔ اگر اس میں موجود ہائیڈروجن کے ایٹموں کو ہائیڈروجن کے آئسوٹوپ سے تبدیل کر دیا جائے؟ شکل اور کیمیائی بانڈ بالکل وہی رہتے ہے لیکن بھاری ہائیڈروجن کی وجہ سے وائبریشن فریکونسی کا سپیکٹرم تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے بو تبدیل ہو جائے تو اس کا مطلب یہ کہ ٹیورن کا دعویٰ درست تھا۔
اب ایک مسئلہ تھا۔ سونگھ کر بتائے گا کون؟ اس کے لئے انحصار کس پر کیا جائے؟ ناکوں کی اس گرما گرم لڑائی میں مسئلہ یہ کہ انسانوں کی توقعات نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ایم آئی ٹی کی ایک ٹیم نے اس کے لئے بہتر نوع کا انتخاب کیا۔ یہ لیبارٹری کی فروٹ فلائی تھیں۔ ان کے لئے دو شاخہ راستہ بنایا گیا۔ ایک شاخ میں ایسیٹوفینون ڈالی گئی۔ تقریباً تمام مکھیوں نے اس سمت جانے کا انتخاب کیا۔ اگلے تجربات میں ہائیڈروجن کے تین، پانچ اور آٹھ ایٹموں کو بھاری ہائیڈروجن سے تبدیل کیا گیا۔ اور نتائج واضح تھے۔ ہائیڈروجن کے تین ایٹموں کی تبدیلی سے ہی مکھیوں کی ترجیح ختم ہو گئی تھی۔ مکھیوں کی قوتِ شامہ ان میں تفریق کرتی تھی۔
مزید کیمیکل اور مزید تجربات وائبریشن تھیوری کے حق میں ہی آئے۔ یہ سٹڈی نیشل اکیڈمی آف سائنس کے جرنل میں 2011 میں شائع ہوئی۔
اگلا سوال: مکھیاں تو آئسوٹوپ کو سونگھ کر الگ کر لیتی ہیں۔ لیکن کیا انسان بھی؟ رضاکاروں پر کئی گئے تجربات نے اس سوال کا جواب بھی ہاں میں دے دیا۔
کوانٹم وائبریشن تھیوری اب تھیوریٹیکل بنیادوں پر بھی مضبوط بنیادوں پر ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی فزسٹ کی ٹیم کی کی گئی کوانٹم کیلکولیشن سے مطابقت رکھتی ہے، لیکن یہ کیس ابھی بند نہیں ہوا۔ ماڈل کا ڈیٹا پر فٹ ہو جانا کافی نہیں۔ اگرچہ تجرباتی شواہد اس کے حق میں ہیں۔ فوٹوسنتھیسز، تنفس، انزائم ایکشن وغیرہ کے برعکس ابھی کوانٹم ٹنلنگ کے مظہر کو براہِ راست ٹیسٹ نہیں کیا جا سکا۔ لیکن ابھی تک اِن الاسٹک کوانٹم ٹنلنگ کے علاوہ کوئی بھی اور ممکنہ وضاحت موجود نہیں جو بتا سکتی ہو کہ پروٹین ارتعاش کی فریکونسی کا پتا کیسے لگا سکتے ہیں۔
ابھی اس معمے کا نامعلوم حصہ اولفیکٹری ریسپٹر کے سٹرچر کا معلوم کرنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنی قدرتی حالت میں یہ خلیاتی ممبرین کے اندر ویسے ہوتے ہیں جیسے سمندر میں جیلی فش۔ اگر ان کو اپنی جگہ سے نکال دیا جائے تو شکل برقرار نہیں رکھتے اور ابھی خلیے کی ممبرین کے اندر پروٹین کے سٹرکچر کو جاننے کا طریقہ معلوم نہیں۔
اگرچہ یہ معاملہ ابھی طے نہیں ہوا لیکن لگتا یہی ہے کہ کوانٹم اِن الاسٹک ٹنلنگ خوشبو کے معمے کا جواب ہے۔ نہ صرف مکھیوں اور انسانوں میں بلکہ کیڑوں اور مچھلیوں میں بھی تجرباتی لحاظ سے ثابت ہو چکا ہے کہ آئسوٹوپ کی بنیاد پر ان کی حسِ شامہ کیمیکل کو الگ کر لیتی ہے۔ کوانٹم ناک اگر ان انواع میں ہے تو یہ جانداروں میں بہت زیادہ عام ہے۔ انسانی مکھی، اینیمون مچھلی اور دوسرے جاندار شاید الیکٹرون کی ایک جگہ سے غائب ہو کر دوسری جگہ نمودار ہونے کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے مادی دنیا کے پیغامات وصول کر رہے ہیں۔ خوراک کے لئے، ساتھی کے لئے اور گھر کا راستہ تلاش کرنے کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناک کا ایک اور اہم استعمال ہے۔ سانس اندر کھینچیں اور باہر نکالیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دوران میں کیا ہوا؟ ہوا کا اندر جانا اور باہر نکلنا ایک بہت لمبے عمل کا پہلا اور آخری قدم تھے۔
(جاری ہے)