انگریزی لفظ فیتھ کا ٹھیک متبادل لفظ اردو میں نہیں۔ لغت میں اس کا ترجمہ “یقین، عقیدہ، اعتماد، بھروسہ، ایمان، اعتقاد” جیسے الفاظ سے کیا جاتا ...
انگریزی لفظ فیتھ کا ٹھیک متبادل لفظ اردو میں نہیں۔ لغت میں اس کا ترجمہ “یقین، عقیدہ، اعتماد، بھروسہ، ایمان، اعتقاد” جیسے الفاظ سے کیا جاتا ہے۔ کچھ ایسا جو ہماری بنیادی قدر ہو جس پر ہم بغیر تذبذب کے اعتبار کرتے ہوں۔ کئی بار اس لفظ کو مذہبی معنوں میں دیکھا جاتا ہے اور بعض لوگ اس لفظ کو سن کر کچھ کسمساتے بھی ہیں لیکن اس کے معنی وسیع تر ہیں اور اس کی موجودگی ناگزیر ہے۔ (اس آرٹیکل کے لئے اس کے لئے “یقین” کا لفظ استعمال کیا جائے گا)۔ ایک نظر اس پر کہ یہ کیا ہے؟
شواہد یا تجربے کا تعلق ماضی سے ہے، امید کا مستقبل سے۔ اور مستقبل میں کیا ہو گا؟ اس کے لئے کسی نہ کسی درجے کے یقین کی ضرورت ہے۔ آپ نے قسطوں پر موٹر سائیکل لیا ہے اور ہر مہینے قسط ادا کرتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ پیسہ اصل شے ہے اور نہ دینے پر موٹرسائیکل کا ضبط ہونا بھی اصل ہو گا۔ آپ بچوں کو ہوم ورک کرنے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ تعلیم اہم ہے اور اس کو حاصل کر کے وہ بہتر انسان بن سکیں گے۔ آپ کو یقین ہے کہ خوشی اصل ہے اور اس کو حاصل کرنا ممکن ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ زندگی زندہ رہنے کے قابل ہے اور محفوظ رہنے اور صحت مند رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو یقین ہے کہ محبت معنی رکھتی ہے، ملازمت معنی رکھتی ہے، زندگی معنی رکھتی ہے۔
آپ کسی بھی فکر سے تعلق رکھتے ہوں، یہ یقین ہے کچھ نہ کچھ اہم ہے۔ حتیٰ کہ اگر nihilist ہیں تو بھی یہ یقین ہے کہ کچھ بھی اہم نہیں۔ بالآخر تان یقین پر ہی ٹوٹتی ہے۔
اگلا اہم سوال۔ کس پر یقین؟ کونسے یقین کا انتخاب؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری اقدار، ہماری شناخت کبھی بھی ایک یا دو یا چار نکات پر نہیں۔ بہت سی جہتیں رکھتی ہے۔ کچھ اقدار دوسری سے اہم ہو سکتی ہیں جن کے عدسے سے ہم باقی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مثلاً، کچھ لوگوں کے لئے دولت کی قدر اہم ترین ہے۔ یہ لوگ تمام دوسری اشیاء (خاندان، محبت، عزت، سیاست) کو اس عدسے سے دیکھتے ہیں۔ “میری عزت اس وقت ہو گی جب میں امیر ہوں گا”۔ “میری فیملی اس وقت میرے ساتھ رہے گی جب میرے پاس پیسے ہوں گے”۔ تنازعہ، جھنجھلاہٹ، حسد، بے چینی، سب کچھ اسی طریقے سے۔
کچھ کے لئے محبت اہم قدر ہوتی ہے۔ ہر چیز کو اسی قدر کے ذریعے دیکھیں گے۔ ہر تنازعے کے مخالف ہوں گے۔ کوئی بھی چیز جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہے، اس کے خلاف۔
کچھ لوگوں کے لئے اہم ترین قدر وہ خود ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی اور طاقت۔ اس کو نرگسیت کہا جاتا ہے۔ اپنا حق حاصل کرنا ان کے لئے اہم ہو گا۔
کچھ کے لئے اہم قدر کوئی دوسرا شخص ہو سکتا ہے۔ اپنی تمام تر امید اس فرد سے کنکشن کے لئے ہو گی۔ اپنا مفاد اس کے لئے پسِ پشت ڈال دیں گے۔ اپنا رویہ، فیصلہ اور اپنے یقین اس طرح سے بنائیں گے کہ وہ خوش ہو۔
یہ اہم ترین یقین بہت قسم کے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک چیز بہترین مستقبل کا باعث بنے گی اور یہ سب سے بڑی امید ہے۔ اس کے بعد ہم اپنی زندگیاں اور دوسری اقدار اس کے مطابق ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ایسی مصروفیات میں حصہ لیتے ہں، ایسے لوگوں میں رہتے ہیں جو ہمارے اس یقین کو شئیر کرتے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پیچھے سے آواز آئی ہے، “کیا کہہ رہے ہو بھائی؟ دنیا میں فیکٹ بھی کوئی شے ہے اور بہت سے شواہد ہیں جو بتاتے ہیں کہ فیکٹ اصل ہیں اور ان کو پہچاننے کے لئے یقین جیسی کسی شے کی کوئی ضرورت نہیں”۔
ٹھیک۔ لیکن یہی سمجھنے کی سب سے اہم بات ہے۔ فیکٹ دنیا کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہیں۔ لیکن اقدار فیکٹ نہیں۔ ان کو ویری فائی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کبھی معروضی نہیں ہو سکتیں اور یہ ہمیشہ arbitrary ہوتی ہیں۔ آپ اگر کسی سے بحث کر رہے ہیں اور اس دوران منہ سرخ ہو چکا، کانوں سے دھواں نکل رہا ہے اور دوسرے ڈھیٹ کا بھی یہی حال ہے تو یہاں پر معاملے کی روح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے تجربات کو اپنی اقدار سے سمجھتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے۔۔۔
ایک شہابیہ ایک شہر پر آ گرا۔ ناگہانی آفت نے شہر کی آدھی آبادی ختم کر دی۔
باقی آبادی میں کچھ لوگوں نے یہ واقعہ دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ یہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ فطرت کا تازیانہ تھا۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ ہمیں سدھر جانا چاہیے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ ایک آفاق سے آنے والے آوارہ ٹکڑے نے زمین پر گر کر بہت سے بے گناہ لوگ مار دئے۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ یہ سب کچھ بے مقصد ہے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی مختصر ہے، کسی وقت بھی کوئی مر سکتا ہے۔ وہ احمق جو مجھے سگریٹ پینے اور نشہ کرنے سے روکتے تھے، وہ خود ہی مارے گئے۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ اس زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا چاہیے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ اسے سرمایہ کاری ایسی کمپنی میں کرنی چاہیے جو شہابیوں سے بچاوٗ کے بزنس میں ہو۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ سرمایہ کاری میں اس کی باربیل حکمتِ عملی کس قدر ٹھیک تھی؟
شہابیے کا گرنا فیکٹ ہے۔ آدھی آبادی کا مارے جانا فیکٹ ہے۔ ان پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ نکالے جانے والے درجنوں اقسام کے نتائج پر نہیں۔ کیونکہ اب ہم فیکٹ کی دنیا میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شواہد کو ہم اپنے یقین کو مزید مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ یک طرفہ رشتہ ہے۔ اس میں صرف ایک لوپ ہول ہے جب شواہد خود اعلیٰ قدر بن جائیں اور اس یقین کو عام طور پر سائنس کہا جاتا ہے اور بطور نوع یہ ہماری بہت اہم فکری اختراع رہی ہے لیکن یہ مضمون اس بارے میں نہیں ۔۔۔ اہم نکتہ کیا ہے؟ کہ اقدار کا تعلق یقین (faith) سے ہے۔ تمام امیدوں کی بنیاد یقین پر ہے۔ اس یقین پر کہ کوئی چیز اہم ہو سکتی ہے، قیمتی ہو سکتی ہے اور درست ہو سکتی ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ اس یقین کو کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یقین کو تین کیٹگری میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ روحانی اور مذہبی یقین، نظریاتی یقین اور ذاتی یقین۔ (اس مضمون کا موضوع دوسری اور تیسری نوعیت کے یقین ہیں)۔
نظریاتی یقین بڑی آبادی کے لئے ایک مشترک اقدار کا نیٹ ورک پیدا کرتے ہیں۔ نیشنلزم، سوشلزم، کپیٹلزم، میٹیریلزم، فاشزمْ، تشکیک پسندی، نسل پرستی، سبزی خوری ۔۔۔ ان کی کسی حد تک پڑتال تو کی جا سکتی ہے۔ مثلاً، مرکزی بینک فائننشل سسٹم کو مستحکم کرتا ہے یا نہیں۔ جمہوریت معاشرے کو بہتر کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن بڑا تعلق یقین سے ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ کچھ چیزوں کی پڑتال کرنا بہت زیادہ مشکل یا ناممکن ہے۔ دوسری یہ کہ بہت سے نظریاتی یقین ایسے ہیں جن کا انحصار ہی اس پر ہے کہ سب اس پر یقین رکھیں۔
مثلاً، کوئی سائنسی لحاظ سے ثابت نہیں کر سکتا کہ پیسہ قدر رکھتا ہے لیکن جب ہم سب اس پر یقین کر لیتے ہیں تو یہ واقعی قدر رکھتا ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ملکی شہریت کوئی چیز ہے یا قوم کوئی شے ہے۔ جب اس پر ہر کوئی یقین کر لیتا ہے تو اصل ہو جاتی ہیں۔ یہ معاشرتی یقین ہیں جن پر ہم سب یقین رکھیں تو اصل ہو جاتے ہیں۔
اور نظریاتی یقین ہمارے مستقبل کی امید کے پراجیکٹ ہیں۔ آپ نے ایسے کئی پراجیکٹ دیکھے ہوں گے۔ انسانی حقوق، جمہوریت، منشیات کے استعمال کی آزادی، کرپشن کے خاتمے، ماحولیات، فیمینزم، گلوبلزم، قوم پرستی، نیولبرل ازم، نیو کنزرویٹو ازم، اظہارِ رائے کے حق میں، اظہارِ رائے کے خلاف ۔۔۔ ایسے بہت سے یقین کے پراجیکٹ جو اپنے پیروکاروں کے لئے امید کی بنیاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ ایک میدان میں جمع ہیں۔ اس میں اگی گھاس کے بیچ میں سفید لکیریں لگی ہیں۔ لاکھوں دیکھنے والوں نے یہ یقین رکھنے پر اتفاق کر لیا ہے کہ ان لکیروں کا کوئی اہم مطلب ہے۔ پھر درجن بھر نوجوان میدان میں داخل ہوئے اور چمڑے کی گیند سے کھیلنے لگے۔ یہ گیند کس طرف جاتی ہے؟ اس کی بنیاد پر دیکھنے والوں میں سے کئی خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں۔ کچھ کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔
سپورٹس یقین اور اقدار کی ایک قسم ہے۔ گیند یہاں پر چلی گئی تو کوئی ہیرو بن گیا اور کوئی ولن۔ کچھ نے اپنے پرستار بنا لئے۔ فلاں بہترین بیٹسمین ہے۔ رول ماڈل ہے۔ فلاں نے اپنا ٹیلنٹ ضائع کر دیا۔ چونکہ وہ فلاں وقت اپنے ہاتھوں سے گیند نہیں تھام سکا تھا، اس لئے ہماری عزت کا مستحق نہیں۔ جس طرح کھیلوں کے نظام بنائی ہوئی حقیقت ہیں، ویسے سیاسی نظام بھی۔ کس کو لیڈرشپ دینی ہے، کسی اتھارٹی ملنی ہے۔ اس گیم کے ضابطے بھی ویسے ہی ہیں۔ خواہ جمہوریت ہو یا ڈکتیٹرشپ۔ سیاست معاشرتی شعور میں ہیرو اور ولن کا کھیل ہے۔ جس میں ہماری پسند ناپسند ہمارا ذاتی یقین ہے۔
یہ ذاتی یقین ہمیں امید دیتے ہیں کہ فلاں شخص ہمیں خوشی دے سکے گا۔ ہمارے لئے میچ جیت سکے گا۔ وہ کرشماتی سربراہِ حکومت، جسے سب پتا ہے، ہمارے مسائل کر دے گا۔ ہمارے محبوب لیڈر اور آئیڈیل۔۔۔۔ اسی طرح موسیقاروں، موجدوں، فنکاروں کی فین فالووٗنگ بھی ان کے چاہنے والوں کے لئے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے اہم ذاتی یقین ہماری فیملی میں، ہمارے رومانٹک تعلقات میں ہوتے ہیں۔ ہر فیملی کے افراد کا یقین کہ اس گروپ کا حصہ ہونے سے ان کی زندگی کو امید اور معنی ملیں گے۔ اپنے رومانٹک رشتے کی اہمیت کے لئے کہانیاں بُنتے ہیں۔ ان پر یقین رکھتے ہیں اور جب یہ یقین اس گروپ میں سب کے پاس ہو تو امید اور معنی دے دیتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میرا شوہر کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔
مجھے یقین ہے کہ جسے میں نے ووٹ دیا، وہ میرے مفاد کے لئے کام کرے گا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری تحریک کامیاب رہی اور ہم نے مخالفین کو پچھاڑ دیا تو دنیا جنت نظیر ہو جائے گی۔
مفید یا مضر ۔۔۔ جدید تہذیب کی بنیاد یقین پر قائم ہے۔ اور یقین کا انحصار جذبات پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر یقین مفید ہیں اور زندگی گزارنے کے لئے ضروری، وہاں ان کے تاریک پہلو بھی ہیں اور اس میں سب سے زیادہ تاریک “ہم بمقابلہ وہ” کا کھیل ہے۔ اس کو کرنے کا گُر یہ کہ یقین سے متعلق کسی بھی سوال، کسی بھی تنقید کو سختی سے دبا دینا۔ اس کا حربہ بھڑک جانے کا ہے۔
اگر تم اس جنگ کو سپورٹ نہیں کرتے تو دہشت گردوں کے ہمدرد ہو
فیمینزم پر تنقید وہی کر سکتا ہے جس کے ذہن میں صنفی تعصب بھرا ہوا ہے معاشی نظام پر نکتہ چینی کرنے والا کمیونسٹ ہے
تم نے اس ادارے پر تنقید کی!! تم غدار ہو
تم نے اس ادارے کے حق میں بات کی!! تم ایجنٹ ہو
جس کا خیال ہے کہ بابر اعظم ویرات کوہلی سے بہتر بلے باز ہے، اسے کرکٹ کا پتا نہیں۔ اس کی کرکٹ کے بارے میں کوئی بھی رائے بے وزن ہے۔
ایسے فقرے اور “دلائل”، گالیاں اور اس سے بھی بدتر ۔۔۔ اس لئے تا کہ کسی بھی منطقی بحث اور مکالمے کو جڑ سے ہی کاٹ دیا جائے۔ یہ گروہی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے۔
اور دوسرا یہ کہ گروہی یقین کے لئے جو شے کسی بھی اور چیز سے زیادہ ضروری ہے، وہ مشترک ولن ہے۔ مشترک ولن ہمیں اکٹھا رکھتے ہیں۔ ہماری تکلیف، ناکامی، کمزوری کی صورت میں ہماری امید ہیں۔
اس ولن کی تخلیق کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ یہ دشمن ہماری امید کا سب سے بڑا جزو ہیں۔ فلاں شخص، ادارہ، ملک، نظام، فکر، طبقہ ۔۔۔ جب ختم ہو جائے گا، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دشمن کا خاتمہ امید کا خاتمہ ہے۔ “اگر دشمن ختم ہو بھی گیا تو بھی مسائل رہیں گے”۔ اگر یہ تسلیم کر لیا تو امید ختم ہو جائے گی۔ جذبہ ماند پڑ جائے گا۔ فرضی یا اصلی دشمن کی تخلیق، اور پھر اسے مجسم برائی قرار دے دینا ۔۔۔ یہ امید کی تلاش میں کی جانے والی تخلیق ہے۔
اور اس کو سمجھ لیں تو پھر سازشی نظریات کی اہمیت بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ “ویکسین ٹھیک نہیں” سے بڑھ کر “ویکسین یہودیوں کی سازش ہیں کیونکہ یہ ہماری آبادی کم کرنا چاہتے ہیں”۔ یا “موسمیاتی تبدیلی ڈھونگ ہے” کے بجائے “موسمیاتی تبدیلی چین کی حکومت کا پھیلایا ہوا ڈھونگ ہے جو دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے”۔ اپنے گروہ کا مشترک دشمن دنیا کے ہر مسئلے کی وضاحت کر دیتا ہے۔ بے بنیاد سازشی نظریات پر ایمان محض ذہنی کاہلی ہی نہیں بلکہ اپنے گروہی یقین کی علامت ہے۔
انتہاپسندی، گروہی تعصب اور حقیقت سے انکار ۔۔۔ یہ یقین کے تاریک پہلو ہیں۔ اگرچہ ایسا نہیں کہ ان سے بچا نہ جا سکے لیکن یہ ہر ایک کے لئے آسان نہیں کیونکہ خود اپنے آپ کو پہچاننا اتنا آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین سے ایکشن نکلتے ہیں۔ علامات، رسومات، تقریبات، قربانیاں۔
ممالک تقریبات کی تخلیق کرتے ہیں۔ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، پریڈ کی جاتی ہے، ترانے پر کھڑا ہوا جاتا ہے۔ خاص دن تخلیق کئے جاتے ہیں۔ منائے جاتے ہیں۔ اور اس ظاہری عمل میں ساتھ نہ دینا گروہ سے غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی اور سماجی تحریکوں کے جلسوں میں بینر بنائے جاتے ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ بیج پہنے جاتے ہیں۔ یہ اپنے نظریاتی یقین سے وفاداری کا اعلان ہے۔
شادی شدہ جوڑے اپنی رسومات تخلیق کرتے ہیں۔ اپنی عادات، اپنے مذاق، اپنی رسومات جو ان کے رشتے کو مضبوط کریں۔
قربانی کا تقاضا اور توقع ہوتی ہے۔ “اس ملک نے تہمیں اتنا کچھ دیا، جاوٗ یونی فارم پہنو اور اس کی خاطر لڑو”۔ رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ۔۔۔ دونوں طرح کی آئیڈیولوجی اپنی اپنی طرز کی قربانیاں طلب کرتی ہیں۔
شادی کی سالگرہ منانا، اپنی پسند اور ترجیحات کو قربان کر دینا، تحفہ دینا ۔۔۔ شادی شدہ جوڑوں میں ان کے یقین کی تجدید کی رسومات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثبت اور منفی ۔۔۔ یقین کے بغیر زندگی نہیں۔ کیونکہ امید کے بغیر زندگی نہیں۔ کسی کے لئے بھی اس کا یقین جامد شے نہیں۔ یہ بدلتے ہیں لیکن اپنے یقین تک پہنچنا، اسے پہچاننا اور اس کا تجزیہ کرنا آسان کام نہیں کیونکہ ان تک پہنچے کا راستہ ریاضی منطق یا حقیقت سے زیادہ جذبات سے ہے۔
تو پھر واپس اہم سوال کی طرف۔ کس پر یقین؟ کونسے یقین کا انتخاب؟ یہ آپ کے اپنے ڈھونڈنے کے لئے۔۔۔۔ صرف یہ کہ اپنے انتخاب کے بارے میں بہت احتیاط۔ یہ انتخاب بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں۔
شواہد یا تجربے کا تعلق ماضی سے ہے، امید کا مستقبل سے۔ اور مستقبل میں کیا ہو گا؟ اس کے لئے کسی نہ کسی درجے کے یقین کی ضرورت ہے۔ آپ نے قسطوں پر موٹر سائیکل لیا ہے اور ہر مہینے قسط ادا کرتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ پیسہ اصل شے ہے اور نہ دینے پر موٹرسائیکل کا ضبط ہونا بھی اصل ہو گا۔ آپ بچوں کو ہوم ورک کرنے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ تعلیم اہم ہے اور اس کو حاصل کر کے وہ بہتر انسان بن سکیں گے۔ آپ کو یقین ہے کہ خوشی اصل ہے اور اس کو حاصل کرنا ممکن ہے۔ آپ کو یقین ہے کہ زندگی زندہ رہنے کے قابل ہے اور محفوظ رہنے اور صحت مند رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ آپ کو یقین ہے کہ محبت معنی رکھتی ہے، ملازمت معنی رکھتی ہے، زندگی معنی رکھتی ہے۔
آپ کسی بھی فکر سے تعلق رکھتے ہوں، یہ یقین ہے کچھ نہ کچھ اہم ہے۔ حتیٰ کہ اگر nihilist ہیں تو بھی یہ یقین ہے کہ کچھ بھی اہم نہیں۔ بالآخر تان یقین پر ہی ٹوٹتی ہے۔
اگلا اہم سوال۔ کس پر یقین؟ کونسے یقین کا انتخاب؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری اقدار، ہماری شناخت کبھی بھی ایک یا دو یا چار نکات پر نہیں۔ بہت سی جہتیں رکھتی ہے۔ کچھ اقدار دوسری سے اہم ہو سکتی ہیں جن کے عدسے سے ہم باقی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں۔ مثلاً، کچھ لوگوں کے لئے دولت کی قدر اہم ترین ہے۔ یہ لوگ تمام دوسری اشیاء (خاندان، محبت، عزت، سیاست) کو اس عدسے سے دیکھتے ہیں۔ “میری عزت اس وقت ہو گی جب میں امیر ہوں گا”۔ “میری فیملی اس وقت میرے ساتھ رہے گی جب میرے پاس پیسے ہوں گے”۔ تنازعہ، جھنجھلاہٹ، حسد، بے چینی، سب کچھ اسی طریقے سے۔
کچھ کے لئے محبت اہم قدر ہوتی ہے۔ ہر چیز کو اسی قدر کے ذریعے دیکھیں گے۔ ہر تنازعے کے مخالف ہوں گے۔ کوئی بھی چیز جو لوگوں کو تقسیم کرتی ہے، اس کے خلاف۔
کچھ لوگوں کے لئے اہم ترین قدر وہ خود ہوتے ہیں۔ ان کی خوشی اور طاقت۔ اس کو نرگسیت کہا جاتا ہے۔ اپنا حق حاصل کرنا ان کے لئے اہم ہو گا۔
کچھ کے لئے اہم قدر کوئی دوسرا شخص ہو سکتا ہے۔ اپنی تمام تر امید اس فرد سے کنکشن کے لئے ہو گی۔ اپنا مفاد اس کے لئے پسِ پشت ڈال دیں گے۔ اپنا رویہ، فیصلہ اور اپنے یقین اس طرح سے بنائیں گے کہ وہ خوش ہو۔
یہ اہم ترین یقین بہت قسم کے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک چیز بہترین مستقبل کا باعث بنے گی اور یہ سب سے بڑی امید ہے۔ اس کے بعد ہم اپنی زندگیاں اور دوسری اقدار اس کے مطابق ہم آہنگ کرتے ہیں۔ ایسی مصروفیات میں حصہ لیتے ہں، ایسے لوگوں میں رہتے ہیں جو ہمارے اس یقین کو شئیر کرتے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پیچھے سے آواز آئی ہے، “کیا کہہ رہے ہو بھائی؟ دنیا میں فیکٹ بھی کوئی شے ہے اور بہت سے شواہد ہیں جو بتاتے ہیں کہ فیکٹ اصل ہیں اور ان کو پہچاننے کے لئے یقین جیسی کسی شے کی کوئی ضرورت نہیں”۔
ٹھیک۔ لیکن یہی سمجھنے کی سب سے اہم بات ہے۔ فیکٹ دنیا کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہیں۔ لیکن اقدار فیکٹ نہیں۔ ان کو ویری فائی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کبھی معروضی نہیں ہو سکتیں اور یہ ہمیشہ arbitrary ہوتی ہیں۔ آپ اگر کسی سے بحث کر رہے ہیں اور اس دوران منہ سرخ ہو چکا، کانوں سے دھواں نکل رہا ہے اور دوسرے ڈھیٹ کا بھی یہی حال ہے تو یہاں پر معاملے کی روح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے تجربات کو اپنی اقدار سے سمجھتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے۔۔۔
ایک شہابیہ ایک شہر پر آ گرا۔ ناگہانی آفت نے شہر کی آدھی آبادی ختم کر دی۔
باقی آبادی میں کچھ لوگوں نے یہ واقعہ دیکھ کر نتیجہ نکالا کہ یہ اس وجہ سے ہوا کہ یہ فطرت کا تازیانہ تھا۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ ہمیں سدھر جانا چاہیے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ ایک آفاق سے آنے والے آوارہ ٹکڑے نے زمین پر گر کر بہت سے بے گناہ لوگ مار دئے۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ یہ سب کچھ بے مقصد ہے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی مختصر ہے، کسی وقت بھی کوئی مر سکتا ہے۔ وہ احمق جو مجھے سگریٹ پینے اور نشہ کرنے سے روکتے تھے، وہ خود ہی مارے گئے۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ اس زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا چاہیے؟
کچھ نے نتیجہ نکالا کہ اسے سرمایہ کاری ایسی کمپنی میں کرنی چاہیے جو شہابیوں سے بچاوٗ کے بزنس میں ہو۔ کیا اب بھی یہ واضح نہیں کہ سرمایہ کاری میں اس کی باربیل حکمتِ عملی کس قدر ٹھیک تھی؟
شہابیے کا گرنا فیکٹ ہے۔ آدھی آبادی کا مارے جانا فیکٹ ہے۔ ان پر اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ نکالے جانے والے درجنوں اقسام کے نتائج پر نہیں۔ کیونکہ اب ہم فیکٹ کی دنیا میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شواہد کو ہم اپنے یقین کو مزید مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ یک طرفہ رشتہ ہے۔ اس میں صرف ایک لوپ ہول ہے جب شواہد خود اعلیٰ قدر بن جائیں اور اس یقین کو عام طور پر سائنس کہا جاتا ہے اور بطور نوع یہ ہماری بہت اہم فکری اختراع رہی ہے لیکن یہ مضمون اس بارے میں نہیں ۔۔۔ اہم نکتہ کیا ہے؟ کہ اقدار کا تعلق یقین (faith) سے ہے۔ تمام امیدوں کی بنیاد یقین پر ہے۔ اس یقین پر کہ کوئی چیز اہم ہو سکتی ہے، قیمتی ہو سکتی ہے اور درست ہو سکتی ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ اس یقین کو کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم یقین کو تین کیٹگری میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ روحانی اور مذہبی یقین، نظریاتی یقین اور ذاتی یقین۔ (اس مضمون کا موضوع دوسری اور تیسری نوعیت کے یقین ہیں)۔
نظریاتی یقین بڑی آبادی کے لئے ایک مشترک اقدار کا نیٹ ورک پیدا کرتے ہیں۔ نیشنلزم، سوشلزم، کپیٹلزم، میٹیریلزم، فاشزمْ، تشکیک پسندی، نسل پرستی، سبزی خوری ۔۔۔ ان کی کسی حد تک پڑتال تو کی جا سکتی ہے۔ مثلاً، مرکزی بینک فائننشل سسٹم کو مستحکم کرتا ہے یا نہیں۔ جمہوریت معاشرے کو بہتر کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن بڑا تعلق یقین سے ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ کچھ چیزوں کی پڑتال کرنا بہت زیادہ مشکل یا ناممکن ہے۔ دوسری یہ کہ بہت سے نظریاتی یقین ایسے ہیں جن کا انحصار ہی اس پر ہے کہ سب اس پر یقین رکھیں۔
مثلاً، کوئی سائنسی لحاظ سے ثابت نہیں کر سکتا کہ پیسہ قدر رکھتا ہے لیکن جب ہم سب اس پر یقین کر لیتے ہیں تو یہ واقعی قدر رکھتا ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ ملکی شہریت کوئی چیز ہے یا قوم کوئی شے ہے۔ جب اس پر ہر کوئی یقین کر لیتا ہے تو اصل ہو جاتی ہیں۔ یہ معاشرتی یقین ہیں جن پر ہم سب یقین رکھیں تو اصل ہو جاتے ہیں۔
اور نظریاتی یقین ہمارے مستقبل کی امید کے پراجیکٹ ہیں۔ آپ نے ایسے کئی پراجیکٹ دیکھے ہوں گے۔ انسانی حقوق، جمہوریت، منشیات کے استعمال کی آزادی، کرپشن کے خاتمے، ماحولیات، فیمینزم، گلوبلزم، قوم پرستی، نیولبرل ازم، نیو کنزرویٹو ازم، اظہارِ رائے کے حق میں، اظہارِ رائے کے خلاف ۔۔۔ ایسے بہت سے یقین کے پراجیکٹ جو اپنے پیروکاروں کے لئے امید کی بنیاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگ ایک میدان میں جمع ہیں۔ اس میں اگی گھاس کے بیچ میں سفید لکیریں لگی ہیں۔ لاکھوں دیکھنے والوں نے یہ یقین رکھنے پر اتفاق کر لیا ہے کہ ان لکیروں کا کوئی اہم مطلب ہے۔ پھر درجن بھر نوجوان میدان میں داخل ہوئے اور چمڑے کی گیند سے کھیلنے لگے۔ یہ گیند کس طرف جاتی ہے؟ اس کی بنیاد پر دیکھنے والوں میں سے کئی خوشی سے نعرے لگا رہے ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں۔ کچھ کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔
سپورٹس یقین اور اقدار کی ایک قسم ہے۔ گیند یہاں پر چلی گئی تو کوئی ہیرو بن گیا اور کوئی ولن۔ کچھ نے اپنے پرستار بنا لئے۔ فلاں بہترین بیٹسمین ہے۔ رول ماڈل ہے۔ فلاں نے اپنا ٹیلنٹ ضائع کر دیا۔ چونکہ وہ فلاں وقت اپنے ہاتھوں سے گیند نہیں تھام سکا تھا، اس لئے ہماری عزت کا مستحق نہیں۔ جس طرح کھیلوں کے نظام بنائی ہوئی حقیقت ہیں، ویسے سیاسی نظام بھی۔ کس کو لیڈرشپ دینی ہے، کسی اتھارٹی ملنی ہے۔ اس گیم کے ضابطے بھی ویسے ہی ہیں۔ خواہ جمہوریت ہو یا ڈکتیٹرشپ۔ سیاست معاشرتی شعور میں ہیرو اور ولن کا کھیل ہے۔ جس میں ہماری پسند ناپسند ہمارا ذاتی یقین ہے۔
یہ ذاتی یقین ہمیں امید دیتے ہیں کہ فلاں شخص ہمیں خوشی دے سکے گا۔ ہمارے لئے میچ جیت سکے گا۔ وہ کرشماتی سربراہِ حکومت، جسے سب پتا ہے، ہمارے مسائل کر دے گا۔ ہمارے محبوب لیڈر اور آئیڈیل۔۔۔۔ اسی طرح موسیقاروں، موجدوں، فنکاروں کی فین فالووٗنگ بھی ان کے چاہنے والوں کے لئے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے اہم ذاتی یقین ہماری فیملی میں، ہمارے رومانٹک تعلقات میں ہوتے ہیں۔ ہر فیملی کے افراد کا یقین کہ اس گروپ کا حصہ ہونے سے ان کی زندگی کو امید اور معنی ملیں گے۔ اپنے رومانٹک رشتے کی اہمیت کے لئے کہانیاں بُنتے ہیں۔ ان پر یقین رکھتے ہیں اور جب یہ یقین اس گروپ میں سب کے پاس ہو تو امید اور معنی دے دیتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میرا شوہر کبھی بے وفائی نہیں کرے گا۔
مجھے یقین ہے کہ جسے میں نے ووٹ دیا، وہ میرے مفاد کے لئے کام کرے گا۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری تحریک کامیاب رہی اور ہم نے مخالفین کو پچھاڑ دیا تو دنیا جنت نظیر ہو جائے گی۔
مفید یا مضر ۔۔۔ جدید تہذیب کی بنیاد یقین پر قائم ہے۔ اور یقین کا انحصار جذبات پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں پر یقین مفید ہیں اور زندگی گزارنے کے لئے ضروری، وہاں ان کے تاریک پہلو بھی ہیں اور اس میں سب سے زیادہ تاریک “ہم بمقابلہ وہ” کا کھیل ہے۔ اس کو کرنے کا گُر یہ کہ یقین سے متعلق کسی بھی سوال، کسی بھی تنقید کو سختی سے دبا دینا۔ اس کا حربہ بھڑک جانے کا ہے۔
اگر تم اس جنگ کو سپورٹ نہیں کرتے تو دہشت گردوں کے ہمدرد ہو
فیمینزم پر تنقید وہی کر سکتا ہے جس کے ذہن میں صنفی تعصب بھرا ہوا ہے معاشی نظام پر نکتہ چینی کرنے والا کمیونسٹ ہے
تم نے اس ادارے پر تنقید کی!! تم غدار ہو
تم نے اس ادارے کے حق میں بات کی!! تم ایجنٹ ہو
جس کا خیال ہے کہ بابر اعظم ویرات کوہلی سے بہتر بلے باز ہے، اسے کرکٹ کا پتا نہیں۔ اس کی کرکٹ کے بارے میں کوئی بھی رائے بے وزن ہے۔
ایسے فقرے اور “دلائل”، گالیاں اور اس سے بھی بدتر ۔۔۔ اس لئے تا کہ کسی بھی منطقی بحث اور مکالمے کو جڑ سے ہی کاٹ دیا جائے۔ یہ گروہی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتی ہے۔
اور دوسرا یہ کہ گروہی یقین کے لئے جو شے کسی بھی اور چیز سے زیادہ ضروری ہے، وہ مشترک ولن ہے۔ مشترک ولن ہمیں اکٹھا رکھتے ہیں۔ ہماری تکلیف، ناکامی، کمزوری کی صورت میں ہماری امید ہیں۔
اس ولن کی تخلیق کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ یہ دشمن ہماری امید کا سب سے بڑا جزو ہیں۔ فلاں شخص، ادارہ، ملک، نظام، فکر، طبقہ ۔۔۔ جب ختم ہو جائے گا، تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دشمن کا خاتمہ امید کا خاتمہ ہے۔ “اگر دشمن ختم ہو بھی گیا تو بھی مسائل رہیں گے”۔ اگر یہ تسلیم کر لیا تو امید ختم ہو جائے گی۔ جذبہ ماند پڑ جائے گا۔ فرضی یا اصلی دشمن کی تخلیق، اور پھر اسے مجسم برائی قرار دے دینا ۔۔۔ یہ امید کی تلاش میں کی جانے والی تخلیق ہے۔
اور اس کو سمجھ لیں تو پھر سازشی نظریات کی اہمیت بھی سمجھ میں آ جائے گی۔ “ویکسین ٹھیک نہیں” سے بڑھ کر “ویکسین یہودیوں کی سازش ہیں کیونکہ یہ ہماری آبادی کم کرنا چاہتے ہیں”۔ یا “موسمیاتی تبدیلی ڈھونگ ہے” کے بجائے “موسمیاتی تبدیلی چین کی حکومت کا پھیلایا ہوا ڈھونگ ہے جو دنیا کی معیشت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے”۔ اپنے گروہ کا مشترک دشمن دنیا کے ہر مسئلے کی وضاحت کر دیتا ہے۔ بے بنیاد سازشی نظریات پر ایمان محض ذہنی کاہلی ہی نہیں بلکہ اپنے گروہی یقین کی علامت ہے۔
انتہاپسندی، گروہی تعصب اور حقیقت سے انکار ۔۔۔ یہ یقین کے تاریک پہلو ہیں۔ اگرچہ ایسا نہیں کہ ان سے بچا نہ جا سکے لیکن یہ ہر ایک کے لئے آسان نہیں کیونکہ خود اپنے آپ کو پہچاننا اتنا آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین سے ایکشن نکلتے ہیں۔ علامات، رسومات، تقریبات، قربانیاں۔
ممالک تقریبات کی تخلیق کرتے ہیں۔ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، پریڈ کی جاتی ہے، ترانے پر کھڑا ہوا جاتا ہے۔ خاص دن تخلیق کئے جاتے ہیں۔ منائے جاتے ہیں۔ اور اس ظاہری عمل میں ساتھ نہ دینا گروہ سے غداری کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
سیاسی اور سماجی تحریکوں کے جلسوں میں بینر بنائے جاتے ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ بیج پہنے جاتے ہیں۔ یہ اپنے نظریاتی یقین سے وفاداری کا اعلان ہے۔
شادی شدہ جوڑے اپنی رسومات تخلیق کرتے ہیں۔ اپنی عادات، اپنے مذاق، اپنی رسومات جو ان کے رشتے کو مضبوط کریں۔
قربانی کا تقاضا اور توقع ہوتی ہے۔ “اس ملک نے تہمیں اتنا کچھ دیا، جاوٗ یونی فارم پہنو اور اس کی خاطر لڑو”۔ رائٹ ونگ اور لیفٹ ونگ۔۔۔ دونوں طرح کی آئیڈیولوجی اپنی اپنی طرز کی قربانیاں طلب کرتی ہیں۔
شادی کی سالگرہ منانا، اپنی پسند اور ترجیحات کو قربان کر دینا، تحفہ دینا ۔۔۔ شادی شدہ جوڑوں میں ان کے یقین کی تجدید کی رسومات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثبت اور منفی ۔۔۔ یقین کے بغیر زندگی نہیں۔ کیونکہ امید کے بغیر زندگی نہیں۔ کسی کے لئے بھی اس کا یقین جامد شے نہیں۔ یہ بدلتے ہیں لیکن اپنے یقین تک پہنچنا، اسے پہچاننا اور اس کا تجزیہ کرنا آسان کام نہیں کیونکہ ان تک پہنچے کا راستہ ریاضی منطق یا حقیقت سے زیادہ جذبات سے ہے۔
تو پھر واپس اہم سوال کی طرف۔ کس پر یقین؟ کونسے یقین کا انتخاب؟ یہ آپ کے اپنے ڈھونڈنے کے لئے۔۔۔۔ صرف یہ کہ اپنے انتخاب کے بارے میں بہت احتیاط۔ یہ انتخاب بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں۔