"جس طریقے سے ہمارا اس زمین پر سفر بڑھ رہا ہے، ویسے ہی آنے والی وبائیں زیادہ شدید ہوں گی۔ جراثیم کی آبادی کا تنوع کم ہو گا اور کامیاب...
"جس طریقے سے ہمارا اس زمین پر سفر بڑھ رہا ہے، ویسے ہی آنے والی وبائیں زیادہ شدید ہوں گی۔ جراثیم کی آبادی کا تنوع کم ہو گا اور کامیاب قاتل زیادہ دور تک اور زیادہ کامیابی سے پھیلے گا اور زیادہ اثر دکھائے گا۔ مجھے اس چیز کا خطرہ دکھائی دیتا ہے کہ آنے والے وقت میں کوئی بہت عجیب اور شدت والا وائرس دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے"۔
نسیم طالب .۔ بلیک سوان۔ 2007
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس وقت خبریں عالمی وبا، اموات، سوشل فاصلہ اور لاک ڈاوٗن جیسی سرخیوں سے بھری پڑی ہیں۔ دنیا جیسے تھم چکی ہے۔ کرونا وائرس اکیسویں صدی کی اس وقت تک کی سب سے بٖڑی عالمی خبر ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کروڑوں لوگ روزگار کھو چکے ہیں۔ سڑکیں اور بازار خالی ہیں۔ لوگ گھروں میں بند ہیں اور بہت سے لوگ نئے وائرس کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
عالمی وبا ماضی بعید کی یا پھر ٹی وی پر سائنس فکشن پروگرام کہانی لگا کرتی تھی لیکن اب یہ آج کا بحران ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا آنا تعجب کی بات نہیں۔ عالمی وبا متوقع خبر تھی۔ عالمی ادارہ صحت برسوں سے ایسی پیشگوئی کرتا رہا ہے۔ اس کو ایکس ڈیزیز (نامعلوم بیماری) کہا جاتا تھا۔ صرف یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کب ہو گا اور کیسے ہو گا۔
تو کووڈ ۱۹ ممکنہ عالمی وباوٗں کے سکیل پر کہاں آتا ہے؟ ہم بہت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ برا ہو سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ایک جان کا نقصان بھی افسوسناک ہے۔ لیکن جب، بطورِ نوع، ہم اس وبا کا موازنہ ماضی کی عالمی وباوٗں کے ساتھ کرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک بہت بچت ہوئی ہے۔ اس سے ہونے والی شرحِ اموات پر ابھی گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں کیونکہ ابھی ابتدائی دن ہیں۔ لیکن یہ عدد اس وقت تین سے چار فیصد لگ رہا ہے۔ (اگر آپ اس کو مستقبل میں پڑھ رہے ہیں تو اس عدد کو ٹھیک کروا دیجئے گا)۔ سارس، جو کہ کرونا وائرس کی ایک اور قسم تھی، میں شرحِ اموات دس فیصد سے زیادہ تھی۔ چیچک میں تیس فیصد تھی۔ ایبولا میں پچاس فیصد کے قریب جبکہ طاعون میں یہ عدد 95 فیصد تھا۔
یہ اعداد و شمار اس لئے کہ ضروری نہیں کہ آئندہ آنے والی وبا (اور یقینی طور پر موجودہ وبا آخری نہیں) میں پیتھوجن کے مارنے کی شرح موجودہ وبا سے کہیں زیادہ بلند بھی ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی پھیلاوٗ کی رفتار موجودہ وبا جتنی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا کہ یہ فقرہ خوف زدہ کرے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کووڈ ۱۹ انسانیت کے لئے مجموعی طور پر اچھی خبر ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ کسی بھی بہت زیادہ خطرناک وبا سے پہلے آ گیا ہے۔ ایسی ممکنہ وبا سے پہلے، جو انسانیت کا بڑے پیمانے پر صفایا کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی کچھ دہائیاں بیماریوں کی عدم موجودگی کے حوالے سے انسانی تاریخ کا سنہرا دور رہا ہے۔ کئی موذی وبائی امراض کو شکست دی گئی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چیچک یا پولیو جیسے امراض کی ہولناکی ہماری اجتماعی یاد سے محو ہو گئی ہے۔ یہ پچھلی نسلوں کی باتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور ایک المیہ یہ ہے کہ ہماری اجتماعی یادداشت فسوسناک حد تک کمزور ہے۔ اس قدر کمزور کہ عالمی طور پر ویکسین کے خلاف مہم چل رہی ہے!!۔
دوسرا یہ کہ جب کوئی چیز یاد سے محو ہو جائے تو سیاسی ترجیح نہیں رہتی۔ سیاسی ترجیح کم ہو جانے کی وجہ سے مختص ہونے والے بجٹ ختم ہونے لگتے ہیں۔ لاپرواہی بڑھنے لگتی ہے اور آنے والے خطرات سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔
آنے والی بیماریوں کی پیشقدمی روکنے کے لئے ریسرچ حالیہ برسوں میں بجٹ کی تخفیف سے گزر رہی ہے۔ اور ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ بچاوٗ کے طریقہ دریافت کرنا ہیڈلائن نہیں بنتا۔ اس لئے اس پر کام نہیں ہوتا۔ 2018 میں امریکی حکومت نے عالمی وبا کی صورت میں مقابلے کا کام کرنے والی ٹیم کو فاضل قرار دے کر ختم کر دیا اور کبھی واپس نہیں بنائی گئی۔ عالمی بیماریوں کی روک تھام کے پروگرامز کے بجٹ میں 80 فیصد کمی کی گئی۔ چین نے، باوجود وارننگ ہونے کے، تحقیق پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہ صورتھال دنیا بھر میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کووڈ ۱۹ کی وبا کے بعد پہلی بار بڑے دواساز اکٹھے ہو کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تعاون غیرمعمولی ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے میں ہونے والی پیشرفت کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مختلف ممالک میں تین سو ٹرائل جاری ہیں۔ ان میں ادویات کے ٹرائل بھی ہیں اور ویکسین کے بھی۔ ان سے اینٹی وائرل ادویات اور ویکسین بنانے پر تحقیق کے شعبے میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ اور یہ تحقیق ہمیں وائرس کو سمجھنے میں بہت مدد کر سکتی ہے۔ اور یہ سمجھ ہمیں آئندہ آنے والے خطرات سے نمٹنے میں بہت کارآمد ہو سکتی ہے۔ اور مستقبل میں صحت پر تحقیق زیادہ عالمی توجہ اور ترجیح لے سکتی ہے۔
یہ وبا ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی عالمی سانحے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری تیاری کتنی ناکافی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان حالات میں فطرت نے اپنا ظالم پانسہ کھیل دیا۔ خوش قسمتی سے یوں لگتا ہے کہ اس بار پانسے میں عدد چھوٹا آیا ہے۔ شاید 1 آیا ہے۔ اس وبا میں ہلاکتوں کی شرح کا جو بھی عدد آخر میں نکلتا ہے، یہ اس سے بہت کم ہے جو ہو سکتا تھا۔ اور اس کی وجہ صرف قسمت ہے۔ اگر یہ چار یا پانچ یا چھ آ جاتا؟ اگر شرحِ اموات ساٹھ یا ستر یا اسی فیصد ہوتی؟ ہماری تیاری تو وہی تھی۔ ہمارے پاس موقع ہی نہ ہوتا کہ اس کا جواب دینے کے لئے کچھ بھی کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف وبا پر اور وائرس کی تحقیق پر کام ہو رہا ہے بلکہ کئی اور پہلووٗں پر بھی۔ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخ میں بہت سی وبائیں ایسی رہی ہیں جو دوسرے جانوروں سے آئی ہیں۔ پرندوں، مویشیوں، کیڑوں اور جنگلی جانوروں سے۔ خیال ہے کہ موجودہ وبا بھی ووہان میں کسی جانور سے آئی ہے۔ آنے والی عالمی وبا کے خطرات میں ہمیشہ سے چین کے “گیلے بازار” ۔۔۔ جن میں انواع و اقسام کے جانور بکا کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ رکھے جاتے ہیں اور ایک چھری سے ذبح کئے جاتے ہیں ۔۔۔ خطرات میں اول نمبر پر شمار کئے جاتے تھے۔ ماہرین اس خطرے سے بہت عرصے سے آگاہ تھے۔ عالمی ادارہ صحت نے کئی بار وارننگ دی تھی کہ ایشیا میں ایسے بازار، خاص طور پر چین میں، بڑی وبا کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس وبا کے بعد چین نے جنگلی جانوروں کے کھانے اور فارمنگ پر سختی سے پابندی لگا دی ہے۔ ان میں ہائی جین کے حالات پر سختی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ اس خطرناک صنعت کو کنٹرول میں لایا جائے گا تا کہ آئندہ کے لئے بچا جا سکے۔ یہ پابندی کتنی موثر ثابت ہوتی ہے، ابھی اس کا معلوم نہیں لیکن چینی حکومت قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے میں شہرت رکھتی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ جراثیم کی منتقلی کا یہ راستہ بند ہو سکتا ہے۔ اگر چین یہ اقدام لے لیتا ہے تو ایسے دوسرے ممالک، جہاں پر ایسے بازار موجود ہیں، وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اور آئندہ دہائیوں میں آنے والا خطرہ ان اقدامات سے بہت کم ہو سکتا ہے۔ اگر 2020 میں کرونا وائرس نہ آیا ہوتا تو ہم 2021 میں بھی اس آگ سے کھیل رہے ہوتے۔ وہ حالات جو سپروائرس پیدا کر سکتے ہیں، جاری رہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور چیز جو اس وائرس نے نمایاں کی ہے، وہ ایک اور بڑی اہم ایجاد کی اہمیت ہے۔ یہ ایجاد لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور بیماریوں سے حفاظت کا بہت اہم ہتھیار ہے۔ یہ ایجاد صابن ہے۔ موجودہ بحران میں بنیادی ہائی جین کی معلومات عام ہوئی ہے۔ ہاتھ ٹھیک طریقے سے دھونے کی اہمیت کی آگاہی بڑھی ہے۔ ماہرینِ صحت اس پر ہمیشہ سے زور دیتے آئے ہیں لیکن اس پر کان اس سے بہت کم دھرے جاتے ہیں جتنا کہ خیال ہے۔ اور اپنی صحت کی حفاظت کے لئے کئے جانا والا یہ سب سے اہم کام ہے۔ بہت سی بیماریاں ہاتھوں کی ٹھیک صفائی سے روکی جا سکتی ہیں۔ ہائی جین کے بارے میں آگاہی اور عمل کرنا جتنا اس وقت ہے، پہلے نہیں تھا۔ امید ہے کہ یہ عادت باقی رہے گی اور طویل مدت میں مجموعی طور پر صحت کو بہتر کر دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو مستقبل کے فائدے ہیں۔ لیکن آج کے بارے میں؟ اس وائرس سے ہونے والا بہت بڑا جانی نقصان جو کم از کم بھی لاکھوں میں ہو گا ۔۔ موت اور مایوسی کا سیاہ شکنجہ ہے جو دنیا بھر میں چھایا ہوا ہے اور بڑھ رہا ہے، لیکن اس تاریک بادل کے کنارے پر سفیدی بھی ہے۔ یہ بہت سی انسانی جانیں بچا بھی چکا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ایشیا کا بڑا حصہ بدترین اور جان لیوا آلودگی کا شکار ہے۔ اور حالیہ ہفتوں میں اس میں ہونے والی کمی نمایاں ہے۔ یہ آلودگی صحت کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہے؟ 2015 میں چین کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سال میں سولہ لاکھ شہری آلودگی کی وجہ سے دل اور پھیپھڑوں کے مسائل یا سٹروک کا شکار ہو کر انتقال کر جاتے ہیں۔ آلودگی کا باعث بننے والے مواد، خاص طور پر اس وقت نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ میں بہت کمی آئی ہے۔ یہ گاڑیوں، ٹرک اور کچھ صنعتوں کے دھویں میں خارج ہوتا ہے۔ کیا مختصر عرصے میں اس میں کمی کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع روکنے میں کچھ مدد ملی ہے؟ سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ماہرِ ارضیات مارشل برک کا اندازہ ہے کہ ہاں۔ اس سال کے ابتدائی مہینوں میں صرف چین میں 73000 زندگیاں آلودگی کی کمی کی وجہ سے بچی ہیں۔ اور اس میں زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں یا بچوں کی تھی۔ اور یہ صرف چین تک محدود نہیں، دنیا بھر کی کہانی ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ دنیا بھر میں یہ وبا جتنی زندگیاں ختم کرے، اس سال کے آخر تک اس سے کہیں زیادہ زندگیاں مقابلتاً صاف ہوا اور پانی کی وجہ سے سے زیادہ بچا چکی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت کرونا وائرس کے ساتھ ایک اور چیز ہے جو دنیا بھر کی خالی سڑکوں اور گلیوں میں وائرس کے ساتھ ساتھ پھیل رہی ہے۔ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو رہی ہے۔ غیرمتوقع طور پر گھروں میں داخل ہو کر لہریں بنا رہی ہے۔ اس وبا میں بڑھنے والا واحد جذبہ خوف نہیں۔ یہ غیرمتوقع جذبہ ہمدردی اور مہربانی کا ہے۔ ۔۔۔ اس ادراک کا، کہ کسی بھی مشکل وقت میں ہم الگ الگ نہیں، اکٹھے ہیں۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم کئی جگہ پر افسوسناک واقعات کی خبریں پڑھتے ہیں (منفی چیز میں خبریت زیادہ ہوتی ہے) لیکن مجموعی طور پر مہربانی کے کاموں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فزیکل فاصلہ رکھنے میں تو احتیاط کر رہے ہیں لیکن ہمارے درمیان سماجی فاصلہ کم کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشی سوناک کہتے ہیں، “جب یہ بحران ختم ہو گا ۔۔ اور یہ ختم تو ہو ہی جائے گا ۔۔۔ ہماری خواہش ہو گی کہ ہم واپس مڑ کر اس وقت کو دیکھیں اور اس وقت کو مہربانی اور اخلاص کے چھوٹے اور بہت سارے کاموں کے حوالے سے یاد کریں۔ وہ جو ہم نے دوسروں کے لئے کئے تھے، وہ جو دوسروں نے ہمارے لئے کئے تھے۔ ہم چاہیں گے کہ ہم اس کو واپس دیکھ کر یاد کریں کہ کیسے ہم دوسروں کی پرواہ کرتے ہیں۔ ہم خودغرض نہیں، بھلے انسان ہیں۔ اور جب ہم مل کر کچھ کرنا چاہیں تو کر ہی لیتے ہیں۔ جب ہم پر مشکل وقت آیا تو سب ساتھ کھڑے تھے۔ اور یہ خوبی ہم سب میں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا ہر لحاظ سے بری خبر ہے۔ لیکن اس کا ہونا غیرمتوقع بالکل بھی نہیں تھا۔ اس سے جانے والی ہر جان افسوسناک ہے۔ لیکن اس پر ہمارا ردِ عمل یہ ممکن بناتا ہے کہ یہ ہمیں اور اگلی نسلوں کو آئندہ آنے والی بہت بری خبروں سے محفوظ رکھ سکے۔
نسیم طالب .۔ بلیک سوان۔ 2007
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس وقت خبریں عالمی وبا، اموات، سوشل فاصلہ اور لاک ڈاوٗن جیسی سرخیوں سے بھری پڑی ہیں۔ دنیا جیسے تھم چکی ہے۔ کرونا وائرس اکیسویں صدی کی اس وقت تک کی سب سے بٖڑی عالمی خبر ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں۔ کروڑوں لوگ روزگار کھو چکے ہیں۔ سڑکیں اور بازار خالی ہیں۔ لوگ گھروں میں بند ہیں اور بہت سے لوگ نئے وائرس کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
عالمی وبا ماضی بعید کی یا پھر ٹی وی پر سائنس فکشن پروگرام کہانی لگا کرتی تھی لیکن اب یہ آج کا بحران ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا آنا تعجب کی بات نہیں۔ عالمی وبا متوقع خبر تھی۔ عالمی ادارہ صحت برسوں سے ایسی پیشگوئی کرتا رہا ہے۔ اس کو ایکس ڈیزیز (نامعلوم بیماری) کہا جاتا تھا۔ صرف یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کب ہو گا اور کیسے ہو گا۔
تو کووڈ ۱۹ ممکنہ عالمی وباوٗں کے سکیل پر کہاں آتا ہے؟ ہم بہت آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس سے بہت زیادہ برا ہو سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ایک جان کا نقصان بھی افسوسناک ہے۔ لیکن جب، بطورِ نوع، ہم اس وبا کا موازنہ ماضی کی عالمی وباوٗں کے ساتھ کرتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک بہت بچت ہوئی ہے۔ اس سے ہونے والی شرحِ اموات پر ابھی گرما گرم بحثیں ہو رہی ہیں کیونکہ ابھی ابتدائی دن ہیں۔ لیکن یہ عدد اس وقت تین سے چار فیصد لگ رہا ہے۔ (اگر آپ اس کو مستقبل میں پڑھ رہے ہیں تو اس عدد کو ٹھیک کروا دیجئے گا)۔ سارس، جو کہ کرونا وائرس کی ایک اور قسم تھی، میں شرحِ اموات دس فیصد سے زیادہ تھی۔ چیچک میں تیس فیصد تھی۔ ایبولا میں پچاس فیصد کے قریب جبکہ طاعون میں یہ عدد 95 فیصد تھا۔
یہ اعداد و شمار اس لئے کہ ضروری نہیں کہ آئندہ آنے والی وبا (اور یقینی طور پر موجودہ وبا آخری نہیں) میں پیتھوجن کے مارنے کی شرح موجودہ وبا سے کہیں زیادہ بلند بھی ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی پھیلاوٗ کی رفتار موجودہ وبا جتنی ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا کہ یہ فقرہ خوف زدہ کرے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کووڈ ۱۹ انسانیت کے لئے مجموعی طور پر اچھی خبر ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ کسی بھی بہت زیادہ خطرناک وبا سے پہلے آ گیا ہے۔ ایسی ممکنہ وبا سے پہلے، جو انسانیت کا بڑے پیمانے پر صفایا کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی کچھ دہائیاں بیماریوں کی عدم موجودگی کے حوالے سے انسانی تاریخ کا سنہرا دور رہا ہے۔ کئی موذی وبائی امراض کو شکست دی گئی ہے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چیچک یا پولیو جیسے امراض کی ہولناکی ہماری اجتماعی یاد سے محو ہو گئی ہے۔ یہ پچھلی نسلوں کی باتیں تاریخ کا حصہ ہیں اور ایک المیہ یہ ہے کہ ہماری اجتماعی یادداشت فسوسناک حد تک کمزور ہے۔ اس قدر کمزور کہ عالمی طور پر ویکسین کے خلاف مہم چل رہی ہے!!۔
دوسرا یہ کہ جب کوئی چیز یاد سے محو ہو جائے تو سیاسی ترجیح نہیں رہتی۔ سیاسی ترجیح کم ہو جانے کی وجہ سے مختص ہونے والے بجٹ ختم ہونے لگتے ہیں۔ لاپرواہی بڑھنے لگتی ہے اور آنے والے خطرات سے آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں۔
آنے والی بیماریوں کی پیشقدمی روکنے کے لئے ریسرچ حالیہ برسوں میں بجٹ کی تخفیف سے گزر رہی ہے۔ اور ایسا دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ بچاوٗ کے طریقہ دریافت کرنا ہیڈلائن نہیں بنتا۔ اس لئے اس پر کام نہیں ہوتا۔ 2018 میں امریکی حکومت نے عالمی وبا کی صورت میں مقابلے کا کام کرنے والی ٹیم کو فاضل قرار دے کر ختم کر دیا اور کبھی واپس نہیں بنائی گئی۔ عالمی بیماریوں کی روک تھام کے پروگرامز کے بجٹ میں 80 فیصد کمی کی گئی۔ چین نے، باوجود وارننگ ہونے کے، تحقیق پر کوئی توجہ نہیں دی۔ یہ صورتھال دنیا بھر میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کووڈ ۱۹ کی وبا کے بعد پہلی بار بڑے دواساز اکٹھے ہو کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تعاون غیرمعمولی ہے۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے میں ہونے والی پیشرفت کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مختلف ممالک میں تین سو ٹرائل جاری ہیں۔ ان میں ادویات کے ٹرائل بھی ہیں اور ویکسین کے بھی۔ ان سے اینٹی وائرل ادویات اور ویکسین بنانے پر تحقیق کے شعبے میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ اور یہ تحقیق ہمیں وائرس کو سمجھنے میں بہت مدد کر سکتی ہے۔ اور یہ سمجھ ہمیں آئندہ آنے والے خطرات سے نمٹنے میں بہت کارآمد ہو سکتی ہے۔ اور مستقبل میں صحت پر تحقیق زیادہ عالمی توجہ اور ترجیح لے سکتی ہے۔
یہ وبا ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی عالمی سانحے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری تیاری کتنی ناکافی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان حالات میں فطرت نے اپنا ظالم پانسہ کھیل دیا۔ خوش قسمتی سے یوں لگتا ہے کہ اس بار پانسے میں عدد چھوٹا آیا ہے۔ شاید 1 آیا ہے۔ اس وبا میں ہلاکتوں کی شرح کا جو بھی عدد آخر میں نکلتا ہے، یہ اس سے بہت کم ہے جو ہو سکتا تھا۔ اور اس کی وجہ صرف قسمت ہے۔ اگر یہ چار یا پانچ یا چھ آ جاتا؟ اگر شرحِ اموات ساٹھ یا ستر یا اسی فیصد ہوتی؟ ہماری تیاری تو وہی تھی۔ ہمارے پاس موقع ہی نہ ہوتا کہ اس کا جواب دینے کے لئے کچھ بھی کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ صرف وبا پر اور وائرس کی تحقیق پر کام ہو رہا ہے بلکہ کئی اور پہلووٗں پر بھی۔ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخ میں بہت سی وبائیں ایسی رہی ہیں جو دوسرے جانوروں سے آئی ہیں۔ پرندوں، مویشیوں، کیڑوں اور جنگلی جانوروں سے۔ خیال ہے کہ موجودہ وبا بھی ووہان میں کسی جانور سے آئی ہے۔ آنے والی عالمی وبا کے خطرات میں ہمیشہ سے چین کے “گیلے بازار” ۔۔۔ جن میں انواع و اقسام کے جانور بکا کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ رکھے جاتے ہیں اور ایک چھری سے ذبح کئے جاتے ہیں ۔۔۔ خطرات میں اول نمبر پر شمار کئے جاتے تھے۔ ماہرین اس خطرے سے بہت عرصے سے آگاہ تھے۔ عالمی ادارہ صحت نے کئی بار وارننگ دی تھی کہ ایشیا میں ایسے بازار، خاص طور پر چین میں، بڑی وبا کے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس وبا کے بعد چین نے جنگلی جانوروں کے کھانے اور فارمنگ پر سختی سے پابندی لگا دی ہے۔ ان میں ہائی جین کے حالات پر سختی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ اس خطرناک صنعت کو کنٹرول میں لایا جائے گا تا کہ آئندہ کے لئے بچا جا سکے۔ یہ پابندی کتنی موثر ثابت ہوتی ہے، ابھی اس کا معلوم نہیں لیکن چینی حکومت قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانے میں شہرت رکھتی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ جراثیم کی منتقلی کا یہ راستہ بند ہو سکتا ہے۔ اگر چین یہ اقدام لے لیتا ہے تو ایسے دوسرے ممالک، جہاں پر ایسے بازار موجود ہیں، وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ اور آئندہ دہائیوں میں آنے والا خطرہ ان اقدامات سے بہت کم ہو سکتا ہے۔ اگر 2020 میں کرونا وائرس نہ آیا ہوتا تو ہم 2021 میں بھی اس آگ سے کھیل رہے ہوتے۔ وہ حالات جو سپروائرس پیدا کر سکتے ہیں، جاری رہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور چیز جو اس وائرس نے نمایاں کی ہے، وہ ایک اور بڑی اہم ایجاد کی اہمیت ہے۔ یہ ایجاد لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور بیماریوں سے حفاظت کا بہت اہم ہتھیار ہے۔ یہ ایجاد صابن ہے۔ موجودہ بحران میں بنیادی ہائی جین کی معلومات عام ہوئی ہے۔ ہاتھ ٹھیک طریقے سے دھونے کی اہمیت کی آگاہی بڑھی ہے۔ ماہرینِ صحت اس پر ہمیشہ سے زور دیتے آئے ہیں لیکن اس پر کان اس سے بہت کم دھرے جاتے ہیں جتنا کہ خیال ہے۔ اور اپنی صحت کی حفاظت کے لئے کئے جانا والا یہ سب سے اہم کام ہے۔ بہت سی بیماریاں ہاتھوں کی ٹھیک صفائی سے روکی جا سکتی ہیں۔ ہائی جین کے بارے میں آگاہی اور عمل کرنا جتنا اس وقت ہے، پہلے نہیں تھا۔ امید ہے کہ یہ عادت باقی رہے گی اور طویل مدت میں مجموعی طور پر صحت کو بہتر کر دے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو مستقبل کے فائدے ہیں۔ لیکن آج کے بارے میں؟ اس وائرس سے ہونے والا بہت بڑا جانی نقصان جو کم از کم بھی لاکھوں میں ہو گا ۔۔ موت اور مایوسی کا سیاہ شکنجہ ہے جو دنیا بھر میں چھایا ہوا ہے اور بڑھ رہا ہے، لیکن اس تاریک بادل کے کنارے پر سفیدی بھی ہے۔ یہ بہت سی انسانی جانیں بچا بھی چکا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ایشیا کا بڑا حصہ بدترین اور جان لیوا آلودگی کا شکار ہے۔ اور حالیہ ہفتوں میں اس میں ہونے والی کمی نمایاں ہے۔ یہ آلودگی صحت کے لئے کتنا بڑا خطرہ ہے؟ 2015 میں چین کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سال میں سولہ لاکھ شہری آلودگی کی وجہ سے دل اور پھیپھڑوں کے مسائل یا سٹروک کا شکار ہو کر انتقال کر جاتے ہیں۔ آلودگی کا باعث بننے والے مواد، خاص طور پر اس وقت نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ میں بہت کمی آئی ہے۔ یہ گاڑیوں، ٹرک اور کچھ صنعتوں کے دھویں میں خارج ہوتا ہے۔ کیا مختصر عرصے میں اس میں کمی کی وجہ سے انسانی جانوں کا ضیاع روکنے میں کچھ مدد ملی ہے؟ سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ماہرِ ارضیات مارشل برک کا اندازہ ہے کہ ہاں۔ اس سال کے ابتدائی مہینوں میں صرف چین میں 73000 زندگیاں آلودگی کی کمی کی وجہ سے بچی ہیں۔ اور اس میں زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں یا بچوں کی تھی۔ اور یہ صرف چین تک محدود نہیں، دنیا بھر کی کہانی ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ دنیا بھر میں یہ وبا جتنی زندگیاں ختم کرے، اس سال کے آخر تک اس سے کہیں زیادہ زندگیاں مقابلتاً صاف ہوا اور پانی کی وجہ سے سے زیادہ بچا چکی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت کرونا وائرس کے ساتھ ایک اور چیز ہے جو دنیا بھر کی خالی سڑکوں اور گلیوں میں وائرس کے ساتھ ساتھ پھیل رہی ہے۔ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو رہی ہے۔ غیرمتوقع طور پر گھروں میں داخل ہو کر لہریں بنا رہی ہے۔ اس وبا میں بڑھنے والا واحد جذبہ خوف نہیں۔ یہ غیرمتوقع جذبہ ہمدردی اور مہربانی کا ہے۔ ۔۔۔ اس ادراک کا، کہ کسی بھی مشکل وقت میں ہم الگ الگ نہیں، اکٹھے ہیں۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ جہاں ہم کئی جگہ پر افسوسناک واقعات کی خبریں پڑھتے ہیں (منفی چیز میں خبریت زیادہ ہوتی ہے) لیکن مجموعی طور پر مہربانی کے کاموں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فزیکل فاصلہ رکھنے میں تو احتیاط کر رہے ہیں لیکن ہمارے درمیان سماجی فاصلہ کم کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشی سوناک کہتے ہیں، “جب یہ بحران ختم ہو گا ۔۔ اور یہ ختم تو ہو ہی جائے گا ۔۔۔ ہماری خواہش ہو گی کہ ہم واپس مڑ کر اس وقت کو دیکھیں اور اس وقت کو مہربانی اور اخلاص کے چھوٹے اور بہت سارے کاموں کے حوالے سے یاد کریں۔ وہ جو ہم نے دوسروں کے لئے کئے تھے، وہ جو دوسروں نے ہمارے لئے کئے تھے۔ ہم چاہیں گے کہ ہم اس کو واپس دیکھ کر یاد کریں کہ کیسے ہم دوسروں کی پرواہ کرتے ہیں۔ ہم خودغرض نہیں، بھلے انسان ہیں۔ اور جب ہم مل کر کچھ کرنا چاہیں تو کر ہی لیتے ہیں۔ جب ہم پر مشکل وقت آیا تو سب ساتھ کھڑے تھے۔ اور یہ خوبی ہم سب میں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرونا وائرس کی عالمی وبا ہر لحاظ سے بری خبر ہے۔ لیکن اس کا ہونا غیرمتوقع بالکل بھی نہیں تھا۔ اس سے جانے والی ہر جان افسوسناک ہے۔ لیکن اس پر ہمارا ردِ عمل یہ ممکن بناتا ہے کہ یہ ہمیں اور اگلی نسلوں کو آئندہ آنے والی بہت بری خبروں سے محفوظ رکھ سکے۔