ساتھ لگی تصویر 1918 میں ایک اشتہار کی ہے۔ اس وقت میں ہونے والے سپینش فلو پچاس کروڑ لوگوں کو بیمار کیا اور کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ اشتہار ا...
ساتھ لگی تصویر 1918 میں ایک اشتہار کی ہے۔ اس وقت میں ہونے والے سپینش فلو پچاس کروڑ لوگوں کو بیمار کیا اور کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ اشتہار اس بیماری کا “علاج” کرنے کے لئے Vicks Vaporub کا ہے۔ ہر بحران اپنے سوقع لے کر آتا ہے اور اس بیماری کا علاج فروخت کرنے والوں میں وکس کا مقابلہ طرح طرح کے ایسے نسخوں سے تھا۔ چلغوزے کے درخت کا رس، ملر کمپنی کا جراثیم کش سانپ کا تیل، کونین برومائیڈ، پودینے کی گولیاں اور یہ اشتہارات اخباروں میں آیا کرتے تھے۔
سو سال بعد آنے والی بڑی عالمی وبا کووڈ 19 کے وقفے میں بہت سی سائنسی دریافتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن اس قسم کے نسخوں کی تعاداد میں فرق نہیں پڑا۔ اس بار ان نسخوں کا مرکزی خیال امیون سسٹم کو مضبوط کرنے کا ہے۔ 1918 میں پیاز زیادہ کھانے کی نصیحت زیادہ مشہور ہوئی تھی۔ اس بار بھی غذائی مشوروں کی تعداد کم نہیں۔ وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹ فیشن میں زیادہ ہیں۔ مصالحے، گرم مشروبات، سبز چائے اور دیگر مشورے جو ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان سے دفاعی نظام کیسے مضبوط ہو گا۔
ان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ مضبوط دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کا سائنسی لحاظ سے کوئی معنی ہی نہیں۔ یہ کوئی ویڈیو گیم کا کردار نہیں جس میں کوئی ہیلتھ پوائنٹ ہیں جن میں کسی طریقے سے اضافہ ہو جائے گا۔
ایک نظر اس پر کہ دفاعی نظام کا معنی کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیونیٹی کے تین حصے ہیں۔ سب سے پہلا حصہ جلد، ہوا کی نالی اور بلغم جیسی اشیاء ہیں جو انفیکشن کے خلاف رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ایک بار وائرس ان سے گزر آئے تو پھر اس کو جبلی امیون ریسپانس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں وہ کیمیکل اور خلیے ہیں جو فٹافٹ الارم بجا کر اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب یہ کافی نہیں ہوتا تو پھر اگلا حصہ جو ایڈاپٹو امیون سسٹم ہے، وہ حرکت میں آتا ہے۔ اس میں خلیے اور پروٹین (اینٹی باڈی) ہیں جن کو شروع ہونے میں کچھ دن یا ہفتے لگتے یہں۔ ایڈاپٹو امیون سسٹم میں اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف کسی خاص پیتھوجن کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کووڈ ۱۹ کے لئے خاص ٹی سیل انفلوئنزا یا بیکٹیریا کے پیتھوجن کے لئے کام نہیں کریں گے۔
زیادہ تر انفیکشن بالآخر ایڈاپٹو امیونیٹی ٹرگر کر دیتے ہیں لیکن اس کی خود سے کرنے کا ایک طریقہ ویکسین کا ہے۔
کیا امیون سسٹم کو مضبوط کرنے کا مطلب اس ریسپانس کی شدت میں اضافہ کرنا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم خود اسے نہیں کرنا چاہیں گے۔
ایسا کیوں؟ اس کے لئے نزلے کی علامات کو بطور مثال دیکھ لیتے ہیں۔ جسم درد، بخار، ذہن پر چھائی دھند، بہت سا بلغم۔ ان میں سے کوئی بھی علامت وائرس کا کام نہیں۔ ہمارے اپنے جسم کے دفاعی نظام کی حرکت ہے۔
بلغم پیتھوجن کو خارج کرتی ہے۔ بخار سے درجہ حرارت کا اضافہ جراثیم کے لئے ناموافق حالات پیدا کرنے کا طریقہ ہے جس میں یہ تیزی سے بڑھ نہ سکے۔ درد اور نڈھال ہونے کی وجہ وہ سوزش پیدا کرنے والے کیمیکل ہیں جو رگوں میں دوڑتے پھرتے ہیں اور امیون سسٹم کی راہنمائی کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے اور یہی علامات ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم آرام کریں اور جسم کو سنبھلنے کا موقع دیں۔
بلغم اور یہ کیمیائی سگنل صحت مند امیون ریسپانس کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ عمل ہمیں نڈھال کر دینے والا ہے۔ اس لئے ہم نہیں چاہیں گے کہ اس میں اضافہ ہو۔ اور پیتھوجن جیسا کہ کووڈ ۱۹ ہو، اس نظام کو ویسے ہی فعال کر دیتے ہیں۔ اگر بالفرض کوئی اس کی ناب کو زیادہ آگے تک گھما سکے تو اس کا مطلب زیادہ تیزی سے بہتی ناک اور زیادہ اونچا بخار ہو گا (اور کوئی بھی “نسخہ” ایسا دعوی نہیں کرتا)۔
دوسرا یہ کہ صحت اس کے توازن میں ہے۔ اگر ایڈاپٹو امیون سسٹم زیادہ حساس ہو جائے تو یہ بہت ناخوشگوار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر الرجی ضرورت سے زیادہ امیون سسٹم کا کام ہے۔ یہ بے ضرر بیرونی اشیاء، جیسا کہ پولن، کو ضرر رساں سمجھ لیتے ہیں۔ اور ان کو دیکھتے ہی امیون ریسپانس آن کر دیتے ہیں جیسا کہ زیادہ چھینکیں، آنکھوں سے پانی اور تھکن۔ اور ایک بار پھر، اپنے اپنے علاج دینے والوں کے ذہن میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگر ہم فرض کر لیں اور شک کا فائدہ دے کر کہیں کہ کسی کے تجویز کردہ چھپکلی کے تیل کے استعمال کے دعوے کا مطلب امیون سسٹم پر کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ زیادہ “ذہین” بنا دینا ہے؟ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے کسی بھی دعوے کے ساتھ شواہد کوئی بھی نہیں۔
تو پھر امیون سسٹم کی مدد کے لئے کیا کیا جائے؟
کئی ملٹی وٹامن دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امیون سسٹم کو صحت مند رکھتے ہیں یا اس کو فنکشن کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کیا یہ دعویٰ ٹھیک ہے؟ نہیں۔ جو لوگ پہلے سے صحت مند ہیں اور ان میں متعلقہ کیمیکل کی کمی نہیں، انہیں یہ فائدہ نہیں دیتے۔ اور کچھ کی زیادتی نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر وٹامن سی کو لے لیں۔ اس بارے میں پائی جانے والی بڑی مقبول کہانی یہ ہے کہ یہ نزلہ زکام سے بچاتی ہے اور اس کہانی کی بنیاد دو بار نوبل انعام جیتنے والے لائنس پالنگ تھے اور وہ اس پر تحقیق کرنے کے بعد یہ وٹامن لیتے رہے لیکن اس کی تصویق نہیں کی جا سکی کہ یہ وٹامن اپنی شہرت سے کوئی بھی مطابقت رکھتا ہے۔ اور سانس کی بیماریوں یا نزلے کو روکنے میں مددگار ہے۔
جن لوگوں میں اس کی کمی نہیں، انہیں اضافی وٹامن فائدہ نہیں دیتا اور ضرورت سے زیادہ لینا گردے کی پتھری کا سبب بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کسی کی غذا متوازن نہیں (مثلاً سخت سبزی خور) تو کمی ہونے کا امکان ہے البتہ زیادہ تر لوگوں میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں ایک استثنا ہے جو وٹامن ڈی کا ہے۔ وٹامن ڈی جبلی اور ایڈاپٹو، دونوں امیون سسٹم میں اہم کردار ادا کرتا ہے (کیسے؟ اس کا ٹھیک طرح سے علم نہیں)۔ اور اس کی کمی دنیا کے بہت سے ممالک میں ہے۔ ایک سٹڈی کے مطابق عالمی آبادی کا پندرہ فیصد اس کی کمی کا شکار ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے وٹامن ڈی مدد کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اینٹی آکسڈنٹ مدد کر سکتے ہیں؟
امیون سسٹم میں خون کے سفید خلیے آکسیجن کے زہریلے کمپاونڈ خارج کرتے ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ جہاں یہ وائرس اور بیکٹیریا کو مار سکتی ہے اور انہیں اپنی کاپی بنانے سے روک سکتی ہے وہاں صحتمند خلیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور یہ ضرر بڑھاپے اور کینسر کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے جسم اینٹی آکسیڈنٹ پر انحصار کرتا ہے اور یہ خلیوں کی محفوظ رکھتا ہے۔ ہم اس کو اپنی خوراک کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ چونکہ یہ عام پر پر رنگدار پگمنٹس میں ہیں تو رنگدار پھل اور سبزیوں، جیسا کہ گاجر، بینگن، ہلدی، سٹرابیری میں پائے جاتے ہیں۔
ایک ٹرائل کیا جا رہا ہے جس سے دیکھا جا سکے کہ کووڈ ۱۹ کے مرض میں اینٹی آکسی ڈنٹ بحالی میں فائدہ دیتے ہیں یا نہیں۔ لیکن یہ اس بیماری میں کئے والے سینکڑوں ٹرائلز میں سے ایک ہے۔ اور اس سے قبل دہائیوں کی تحقیق سے ابھی تک کوئی بھی ایک سٹڈی یہ نہیں بتاتی کہ اس کی زیادہ مقدار امیون سسٹم کو کوئی فائدہ دیتی ہے یا بیماریوں کو روکنے میں یا ٹھیک ہونے میں کوئی مدد کر سکتی ہے۔
ایسا ہی معاملہ پروبائیوٹک کے ساتھ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اصل اور بڑے سوال کی طرف۔ آخر امیون سسٹم کی مدد کے لئے کیا کیا جائے؟ کیا کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا؟ کچھ بھی کارآمد نہیں؟
نہیں، ایسا نہیں۔ ایسے طریقے ہیں جن سے مدد کی جا سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی جادوئی ٹوٹکا نہیں۔ وہی طریقے ہیں جن کا ہمیں بہت عرصے سے علم ہے۔ مناسب اور متوازن غذا، نیند پوری کرنا، ورزش اور مطمئن زندگی۔ قبل از وقت بچاوٗ کے لئے جادوئی ٹوٹکوں میں سے ایک ہی ہے جو کام کرتا ہے، اس کو ہم ویکسین کہتے ہیں۔
لیکن اگر آپ اس کے علاوہ کوئی ٹوٹکا لینے پر بضد ہیں تو ٹھیک ہے۔ سبز چائے، امی کے ہاتھ کی بریانی، ناریل کا تیل۔ اپنی پسند کا ٹوٹکا اگر بے ضرر ہے اس کا استعمال ضرور کر لیں۔ ہاں، احتیاط کرنا بالکل مت بھولیں۔