دیکھنے اور سننے کی حس دنیا کے بارے میں معلومات بالواسطہ لے کر آتی ہے۔ الیکٹرومیگنیکٹک یا آواز کی لہروں کے ذریعے۔ جبکہ چکھنے اور سونگھنے ک...
دیکھنے اور سننے کی حس دنیا کے بارے میں معلومات بالواسطہ لے کر آتی ہے۔ الیکٹرومیگنیکٹک یا آواز کی لہروں کے ذریعے۔ جبکہ چکھنے اور سونگھنے کی حس براہِ راست مالیکیول کی شناخت ہے۔ چکھنے میں لعاب میں حل ہونے والے مالیکیول جبکہ سونگھنے میں ہوا میں تیرنے والے مالیکیول۔ اور چونکہ یہ مالیکیول ہوا میں تیرنے والے ہیں۔ اس لئے یہ چھوٹے مالیکیول ہوتے ہیں۔
سونگھنے میں ناک کا کردار براہِ راست نہیں ہے۔ اس کا کام ناک کے پیچھے اولفیکٹری ایپی تھیلیم تک ہوا کو چینل کر کے پہنچانا ہے۔ یہ چھوٹا ٹشو ہے جو ڈاک کے ٹکٹ کے سائز کا ہے لیکن اس میں کئی ملین اولفیکٹری نیورون ہیں۔ ان کا سر ویسے ہے جیسے جھاڑو کے تنکے نکلے ہوں اور خلیہ کے ممبرین فولڈ ہو کر بہت سے بالوں کی شکل کے سیلیا بن جاتے ہیں۔ جھاڑو خلیے کے تہہ سے نکلا ہوا بو کے مالیکیول پکڑتا ہے۔ جبکہ اس خلیے کا دوسرا حصہ جھاڑو کے ہینڈل کی طرح ہے جو اس کو ناک کے پیچھے چھوٹی ہڈی میں سے گزرتے ایگزون کے ذریعے دماغ سے ملاتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ اولفیکٹری بلب کہلاتا ہے۔
اگر آپ کے سامنے لیموں کاٹا ہوا پڑا ہے تو بو بڑی پیچیدہ ہے اور اس میں سے سینکڑوں مالیکیول تبخیری عمل سے نکل رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشبو کا باعث بننے والا مالیکیول لیمونین ہے۔ یہ سٹرس پودوں میں پیدا ہونے والا کیمیکل ہے اور ان کے پھلوں کے چھلکے میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ عام درجہ حرارت پر یہ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور لاکھوں مالیکیول ہوا میں بکھرتے ہیں۔ ان میں سے چند آپ کی ناک میں داخل ہوں گے۔ آپ نے جب سانس اندر کھینچا تو یہ اولفیکٹری ایپی تھیلیم تک پہنچ گئے۔ اور یہاں کے برش میں پھنس گئے۔ ایسا ایک مالیکیول کافی ہے کہ وہ نیورون میں مثبت چارج پیدا کر دے۔ جب تقریباً پینتیس مالیکیول پکڑے گئے تو خلیے میں آئیون کے بہاوٗ کی وجہ سے برقی کرنٹ ایک پیکو ایمپئیر (ایک ایمپئیر کا دس کھربواں حصہ) ہو گا۔ اتنا کرنٹ ایک سوئچ کا کام کرتا ہے کہ برقی سگنل فائر ہو جائے جسے ایکشن پوٹینشل کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کے اولفیکٹری بلب تک پہنچے گا۔ نیورل پراسسنگ کے بعد ہمارا ذہن مادی حقیقت کا تجربہ لیموں کی کھٹی مہک کی صورت میں کرے گا۔
رچرڈ ایکسیل اور لنڈا بک کی تحقیق نے انسانوں میں تین سو ریسپٹر دریافت کئے۔ تکنیک بنائی جس کے ذریعے اولفیکٹری نیورون کو آئسولیٹ کیا جا سکے۔ اس کے ذریعے یہ دریافت کیا کہ بو والا ایک کیمیکل صرف نہیں، کئی نیورون ایکٹویٹ کرتا ہے۔ اور یہ کہ ایک نیورون کا ریسپانس مختلف بووٗں کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ صرف تین سو ریسپٹرز کے ذریعے دس ہزار مختلف بووٗں میں تمیز کی جا سکتی ہے۔ (یہ ریسپٹر اصولی طور پر کئی ٹریلین بووٗں میں تمیز کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔ رچرڈ ایکسل اور لنڈا بک کو حسِ شامہ کے سٹرکچر کی دریافت پر 2004 میں نوبل انعام ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بو کی شناخت کے عمل میں سے سب سے ضروری ایونٹ بُو کے مالیکیول کو پکڑنے کا ہے۔ لیکن ہر ریسپٹر کیسے اپنے سے متعلقہ مالیکیولز کی شناخت کرتا ہے؟ مالیکیولز کے گزرتے سمندر میں سے اپنی پسند کے مالیکیول کو ہی کیوں اچک لیتا ہے اور دوسروں کو نہیں؟
یہ قوتِ شامہ کا مرکزی معمہ ہے۔
روایتی وضاحت تالے اور چابی کے مکینزم کی ہے۔ آنے والا مالیکیول اولفیکٹری ریسپٹر میں کسی چاپی کی طرح فٹ ہو جاتا ہے۔ ان کی بائنڈنگ ہو جانے کے بعد ایک پروٹین (جی پروٹین) کا اخراج ہوتا ہے اور یہ کسی جہاز سے فائر ہونے والے تارپیڈو کی طرح کا واقعہ ہے جو چینل کھول دیتا ہے اور برقی سگنل فائر ہو جاتا ہے۔
تالے اور چابی کا مکینزم پیشگوئی کرتا ہے کہ ریسپٹر کے مالیکیول اور بو کے مالیکیول کے شکلیں کمپلیمنٹری ہوں گی۔ اس سے یہ بھی پیشگوئی ہوتی ہے کہ اگر مالیکیولز کی شکلیں ایک جیسی ہوں تو بو بھی ایک جیسی ہو گی۔
اور یہ وہ سوال تھا جو میلکم ڈائیسن کو پریشان کر رہا تھا۔ بہت مختلف شکلوں والے مالیکیولز کے ایک ہی بو یا ایک ہی شکل کے مالیکیولز کی الگ بو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرفیوم اور فلیور تیار کرنے والی صنعت کے لئے یہ اس وقت یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مالیکیول کی شکل بو کی پیشگوئی نہیں کرتی۔ اس کی مدد سے پرفیوم ڈیزائن نہیں کی جاتی۔ یہ کیمیائی سنتھیسز کے بعد کیمیا دانوں کی ناک اور بار بار کے تجربوں سے ہی نکلتی ہے۔ ڈائی سن نے تجویز پیش کی کہ وہ طریقہ جس سے بو کی شناخت ہوتی ہے، مالیکیول کی شکل نہیں بلکہ ایک اور خاصیت ہے۔ اور وہ یہ کہ مالیکیول کے اندر ایٹموں کے بانڈ کے وائبریٹ ہونے کی فریکونسی کیا ہے۔
(جاری ہے)
سونگھنے میں ناک کا کردار براہِ راست نہیں ہے۔ اس کا کام ناک کے پیچھے اولفیکٹری ایپی تھیلیم تک ہوا کو چینل کر کے پہنچانا ہے۔ یہ چھوٹا ٹشو ہے جو ڈاک کے ٹکٹ کے سائز کا ہے لیکن اس میں کئی ملین اولفیکٹری نیورون ہیں۔ ان کا سر ویسے ہے جیسے جھاڑو کے تنکے نکلے ہوں اور خلیہ کے ممبرین فولڈ ہو کر بہت سے بالوں کی شکل کے سیلیا بن جاتے ہیں۔ جھاڑو خلیے کے تہہ سے نکلا ہوا بو کے مالیکیول پکڑتا ہے۔ جبکہ اس خلیے کا دوسرا حصہ جھاڑو کے ہینڈل کی طرح ہے جو اس کو ناک کے پیچھے چھوٹی ہڈی میں سے گزرتے ایگزون کے ذریعے دماغ سے ملاتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ اولفیکٹری بلب کہلاتا ہے۔
اگر آپ کے سامنے لیموں کاٹا ہوا پڑا ہے تو بو بڑی پیچیدہ ہے اور اس میں سے سینکڑوں مالیکیول تبخیری عمل سے نکل رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشبو کا باعث بننے والا مالیکیول لیمونین ہے۔ یہ سٹرس پودوں میں پیدا ہونے والا کیمیکل ہے اور ان کے پھلوں کے چھلکے میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ عام درجہ حرارت پر یہ بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور لاکھوں مالیکیول ہوا میں بکھرتے ہیں۔ ان میں سے چند آپ کی ناک میں داخل ہوں گے۔ آپ نے جب سانس اندر کھینچا تو یہ اولفیکٹری ایپی تھیلیم تک پہنچ گئے۔ اور یہاں کے برش میں پھنس گئے۔ ایسا ایک مالیکیول کافی ہے کہ وہ نیورون میں مثبت چارج پیدا کر دے۔ جب تقریباً پینتیس مالیکیول پکڑے گئے تو خلیے میں آئیون کے بہاوٗ کی وجہ سے برقی کرنٹ ایک پیکو ایمپئیر (ایک ایمپئیر کا دس کھربواں حصہ) ہو گا۔ اتنا کرنٹ ایک سوئچ کا کام کرتا ہے کہ برقی سگنل فائر ہو جائے جسے ایکشن پوٹینشل کہا جاتا ہے۔ یہ دماغ کے اولفیکٹری بلب تک پہنچے گا۔ نیورل پراسسنگ کے بعد ہمارا ذہن مادی حقیقت کا تجربہ لیموں کی کھٹی مہک کی صورت میں کرے گا۔
رچرڈ ایکسیل اور لنڈا بک کی تحقیق نے انسانوں میں تین سو ریسپٹر دریافت کئے۔ تکنیک بنائی جس کے ذریعے اولفیکٹری نیورون کو آئسولیٹ کیا جا سکے۔ اس کے ذریعے یہ دریافت کیا کہ بو والا ایک کیمیکل صرف نہیں، کئی نیورون ایکٹویٹ کرتا ہے۔ اور یہ کہ ایک نیورون کا ریسپانس مختلف بووٗں کے لئے مختلف ہوتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ صرف تین سو ریسپٹرز کے ذریعے دس ہزار مختلف بووٗں میں تمیز کی جا سکتی ہے۔ (یہ ریسپٹر اصولی طور پر کئی ٹریلین بووٗں میں تمیز کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔ رچرڈ ایکسل اور لنڈا بک کو حسِ شامہ کے سٹرکچر کی دریافت پر 2004 میں نوبل انعام ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بو کی شناخت کے عمل میں سے سب سے ضروری ایونٹ بُو کے مالیکیول کو پکڑنے کا ہے۔ لیکن ہر ریسپٹر کیسے اپنے سے متعلقہ مالیکیولز کی شناخت کرتا ہے؟ مالیکیولز کے گزرتے سمندر میں سے اپنی پسند کے مالیکیول کو ہی کیوں اچک لیتا ہے اور دوسروں کو نہیں؟
یہ قوتِ شامہ کا مرکزی معمہ ہے۔
روایتی وضاحت تالے اور چابی کے مکینزم کی ہے۔ آنے والا مالیکیول اولفیکٹری ریسپٹر میں کسی چاپی کی طرح فٹ ہو جاتا ہے۔ ان کی بائنڈنگ ہو جانے کے بعد ایک پروٹین (جی پروٹین) کا اخراج ہوتا ہے اور یہ کسی جہاز سے فائر ہونے والے تارپیڈو کی طرح کا واقعہ ہے جو چینل کھول دیتا ہے اور برقی سگنل فائر ہو جاتا ہے۔
تالے اور چابی کا مکینزم پیشگوئی کرتا ہے کہ ریسپٹر کے مالیکیول اور بو کے مالیکیول کے شکلیں کمپلیمنٹری ہوں گی۔ اس سے یہ بھی پیشگوئی ہوتی ہے کہ اگر مالیکیولز کی شکلیں ایک جیسی ہوں تو بو بھی ایک جیسی ہو گی۔
اور یہ وہ سوال تھا جو میلکم ڈائیسن کو پریشان کر رہا تھا۔ بہت مختلف شکلوں والے مالیکیولز کے ایک ہی بو یا ایک ہی شکل کے مالیکیولز کی الگ بو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرفیوم اور فلیور تیار کرنے والی صنعت کے لئے یہ اس وقت یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مالیکیول کی شکل بو کی پیشگوئی نہیں کرتی۔ اس کی مدد سے پرفیوم ڈیزائن نہیں کی جاتی۔ یہ کیمیائی سنتھیسز کے بعد کیمیا دانوں کی ناک اور بار بار کے تجربوں سے ہی نکلتی ہے۔ ڈائی سن نے تجویز پیش کی کہ وہ طریقہ جس سے بو کی شناخت ہوتی ہے، مالیکیول کی شکل نہیں بلکہ ایک اور خاصیت ہے۔ اور وہ یہ کہ مالیکیول کے اندر ایٹموں کے بانڈ کے وائبریٹ ہونے کی فریکونسی کیا ہے۔
(جاری ہے)