Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

شریر لوگوں کے سیاہ جہاز ۔ جاپان کا بحران

چار بحری جہاز ایک سلطنت کے پاس ایک الٹی میٹم لے کر پہنچے تھے۔ ہمارے مطالبات تسلیم کر لو۔ ہم اگلے سال پھر آئیں گے۔ ان مطالبات کو تسلیم کر ل...

چار بحری جہاز ایک سلطنت کے پاس ایک الٹی میٹم لے کر پہنچے تھے۔ ہمارے مطالبات تسلیم کر لو۔ ہم اگلے سال پھر آئیں گے۔ ان مطالبات کو تسلیم کر لینے کا مطلب یہاں کی صدیوں کی روایات کو توڑ دینا تھا۔ یہ تضحیک آمیز تھے۔ لیکن یہاں کے لوگوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

بحران شخصی ہو یا قومی۔ سب کچھ توڑ بھی سکتا ہے اور ایک نیا جنم بھی سکتا ہے۔ لیکن بہت کچھ بدل دیتا ہے۔ کموڈور میتھیو پیری کا جاپان کو 1853 میں دیا گیا یہ الٹی میٹم جاپان کی تاریخ کا بڑا بحران تھا۔ جاپانی اس کو “شریر لوگوں کے سیاہ جہاز” کے نام کہتے ہیں۔  جدید جاپان نے اس سے جنم لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاپان اور یورپ کا پہلا تجارتی رابطہ 1542 میں ہوا تھا جب ولندیزی جہاز یہاں پر پہنچے۔ جاپان ایک وراثتی عسکری ڈکٹیٹرشپ کے ماتحت تھا۔ اس کے سربراہ کو شوگن کہا جاتا تھا۔ بادشاہ کا عہدہ علامتی تھا۔ مغربی اثر و رسوخ کو بڑھتا دیکھ کر شوگن نے 1639 میں جاپان نے ان رابطوں پر پابندی لگا دی۔ مسیحیت ممنوع قرار پائی۔ جاپانیوں کے ملک سے باہر جانے اور رہنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چینی تاجر ناگاساکی کی بندرگاہ پر آ سکتے تھے۔ یورپی ممالک سے صرف ڈچ تاجر (کیونکہ یہ کیتھولک نہیں تھے)۔ ان تاجروں کو عام آبادی سے اس طرح دور رکھا جاتا تھا جیسے خطرناک جراثیم کو الگ رکھا جاتا ہے۔ کچھ ڈومین اپنا تجارتی تعلق کوریا، چین اور روکیو سے رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن تعلقات بہت محدود تھے۔ عملی اور سائنسی مضامین کے لئے خاص طور پر میڈیسن، آسٹرونومی، نقشہ بندی، گن، سروے میں ڈچ اور چین سے آئے لٹریچر کی مدد لی جاتی تھی لیکن مجموعی طور پر باقی دنیا سے محدود تعلقات تھے۔ اگلی دو صدیاں ایسے ہی گزر گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں صدی کے وسط کا جاپان میں آج سے بڑا مختلف تھا۔ ایک فیوڈل ہائیرارکی کا معاشرہ جو مختلف ڈومین میں بٹا تھا۔ ہر ڈومین کو ایک ڈیمیو کنٹرول کرتا تھا۔ طاقت کے اس سٹرکچر کے اوپر شوگن کھڑا تھا۔ آپس میں لڑائیاں چلتی رہتی تھیں۔ ڈھائی سو سال سے ٹوکوگاوا کا خاندان شوگنیٹ کا سربراہ تھا اور جاپانی کی ایک چوتھائی زرعی اراضی اس کے پاس تھی۔ ڈیمیو اس کی اجازت کے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اپنا قلعہ تعمیر یا مرمت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ کبھی بغاوت ہوتی رہتی تھی لیکن شوگن کو زیادہ مسائل نہیں رہے۔ چین میں برطانیہ اور فرانس پہنچ چکے تھے۔ جاپان کو چیلنج کرنے والا امریکہ تھا۔

امریکہ نے کیلے فورنیا کو میکسیکو کے ساتھ جنگ میں 1848 میں حاصل کیا تھا اور یہ اس کی 31ویں ریاست تھی۔ اس کے بعد امریکہ کا بحرالکاہل میں وہیل پکڑنے والے اور تجارتی جہازوں میں اضافہ ہو گیا۔ جاپان کے قریب جہازوں کو نقصان پہنچتا یا غرق ہوتے تو یہ جاپان کے قبضے میں آ جاتے۔ ٹوکوگاا کی تنہائی کی پالیسی کے تحت ان ملاحوں کو قتل کر دیا جاتا۔ امریکہ کو نہ صرف اس میں جاپان کی مدد کی ضرورت تھی بلکہ ان کو چلانے کے لئے جاپان سے کوئلہ خریدنے کی خواہش بھی۔ برطانیہ اور فرانس کی ایشیا پر تجارتی اجارہ داری ختم کرنے کی بھی۔

امریکی صدر ملارڈ فلمور نے کموڈور میتھیو پیری کی قیادت میں چار جہازوں کا بحری بیڑہ جاپان بھیجا۔ یہ جہاز کسی بھی جاپانی جہاز سے کہیں زیادہ ایڈوانسڈ تھے۔ (جاپان کے پاس ابھی سٹیم انجن بھی نہیں آیا تھا)۔ 8 جولائی 1853 کو یہ بن بلائے مہمان ٹوکیو کی بندرگاہ پر پہنچے۔ اس بندرگاہ پر جہاں کوئی غیرملکی جہاز کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ جاپانیوں کے اس بندرگاہ کو چھوڑ دینے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ فلمور کا مطالبات کا خط جاپانیوں کے حوالے کیا اور اعلان کیا کہ وہ اگلے سال اس خط کا جواب لینے پھر آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میتھیو پیری کا یہاں پہنچنا، کھلی دھمکی دینا جاپان کے لئے ایک بڑا اور غیرمتوقع بحران تھا۔ الگ تھلگ رہنا انتخاب نہیں رہا تھا۔ 13 فروری 1854 میں کوڈور پیری نو جہازوں کا اگلا بیڑہ لے کر جواب لینے پہنچے تو جاپان نے پہلی بار کسی ملک سے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس کی 215 سالہ تنہائی کا خاتمہ ہو گیا۔ برطانیہ، روس، فرانس اور ڈچ نے بھی جلدمعاہدے کر لئے۔ کمزور جاپان سے کسی کا معاہدہ بھی برابری کی بنیاد پر نہیں تھا۔ ان نئے آنے والوں کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ ہم اتنے کمزور کیوں ہیں؟ اب کیا کریں؟ ان ذلت آمیز معاہدوں سے کیسے جان چھڑوائیں؟ کیا ہم بھی ایک کالونی بننے لگے ہیں؟ یہ جاپان کے سوال تھے۔

اس کے نتیجے میں معاشرے میں شروع ہونے والی تبدیلیوں کی بڑی لہر کی وجہ سے شوگن کی 265 سال سے جاری رہنے والی حکومت کا خاتمہ اگلے چودہ سال میں ہو گیا۔ اس بحران کے دور کے خاتمے کے بعد جاپان میں 1868 سے شروع ہونے والا میجی کا عہد جاپان کی تاریخ کا اہم ترین عہد سمجھا جاتا ہے۔ صرف ایک ہی نسل کے اندر اندر جاپان ایک فیوڈل معاشرے سے تبدیل ہو کر جدید تعلیم یافتہ صنعتی ریاست بن چکی تھی۔

بیسویں صدی کے آغاز میں جاپان کالونی بننے کے بجائے کالونی بنانے والی ریاست بن گیا تھا۔ پہلی ایشیائی ملک جس نے کالونیل دور میں کسی یورپی طاقت کو اعلانیہ اور بھرپور جنگ میں شکست دے کر جزائر سالخن جزیرے پر قبضہ حاصل کر لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بحران کے بعد کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہتا۔ ایک بیرونی طاقت کے دئے گئے الٹی میٹم نے اس ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جدید جاپان کی بنیاد اس بحران کے ردِعمل کے نتیجے میں پڑی تھی۔ جاپان نے اس کا جواب طویل مدت میں معاشرے میں برپا کئے گئے انقلاب سے دیا گیا۔
 
 (جاری ہے)