آخر میں آ کر مریض چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہنس پڑتا تھا۔ ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا تھا، گر پڑتا تھا۔ اس سے پہلے کی علامات سستی، سردرد، جوڑوں...
آخر میں آ کر مریض چھوٹی سے چھوٹی بات پر ہنس پڑتا تھا۔ ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا تھا، گر پڑتا تھا۔ اس سے پہلے کی علامات سستی، سردرد، جوڑوں کا درد وغیرہ تھیں اور چلتے ہوئے بے ڈھنگی چال۔ اس کا سبب کچھ اور ہو سکتا تھا لیکن جب یہ ہنسی والی سٹیج آتی تھی تو پتا لگ جاتا تھا۔ اس کو کورو کا مرض تھا۔ ابتدائی علامات کے چند مہینے کے اندر اندر یہ مریض انتقال کر جاتا۔ اس کا شکار عام طور پر خواتین اور بچے تھے۔ یہ مشرقی نیوگنی کی بیماری تھی۔ اپنی آخری سٹیج پر مریض بغیر بانس کے سہارے کے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا، پھر بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ پھر کھانے کی نالی پر کنٹرول نہیں رہتا تھا اور کوئی چیز نگلی نہیں جا سکتی تھی۔ خوش قسمت مریض نمونیا سے مر جاتے تھے کیونکہ نگلنے کی صلاحیت ختم ہو جانے کی وجہ سے فاقہ زدگی سے موت ایک برا انجام تھا۔
مرنے والے کا غم منانے کے بعد مقامی خواتین سرکنڈوں اور چھال کا بنا بستر بنا کر مرنے والے کو اس پر لٹاتی تھیں۔ کیلے کے پتوں میں اس کو لپیٹا جاتا تھا۔ اور پھر پتھر کے چاقووٗں سے مرنے والے کو کاٹ دیا جاتا تھا۔ ہر عضو ۔ دل، گردے، آنتیں ۔ کو پتوں میں ڈال کر کاٹا جاتا، نمک چھڑکا جاتا، ادرک ڈالی جاتی اور بانس میں بھر لیا جاتا۔ ہڈیوں کا سرمہ بنایا جاتا اور ان کو بھی ان بانسوں میں ڈال لیا جاتا۔ صرف کڑوے پتے کو پھینکا جاتا۔ سر سے بال الگ کر لئے جاتے اور مغز نکال کر الگ کر کے الگ بانسوں میں بھر لیا جاتا۔ اس سب کو بھاپ میں پکایا جاتا۔ جو گڑھے میں گرم کئے پتھروں کے اوپر پکایا جاتا۔ یہ ضیافت اڑائی جاتی جب تک ہر کوئی سیر نہ ہو جاتا۔
اپنے پیاروں کو کیڑے مکوڑوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دینا بھی کوئی مہذب حرکت ہے۔ یہ تو جانوروں کا طریقہ ہے۔ اس قدر قابلِ نفرت رویہ تو دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں رکھنا چاہیے۔ مرنے والے ہمارے جسم کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ فورے کی قبائلی روایات تھیں۔ کورو کی بیماری نے اس قبیلے کا رخ کیا تھا۔ یہ اپنی زندگی دنیا سے بالکل الگ تھلک گزار رہے تھے۔ اس قدر الگ تھلک کہ ان کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ سمندر کوئی شے ہے۔ بیسویں صدی میں باقی دنیا نے اس علاقے کو دیکھنا شروع کیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں ایک جاپانی طیارہ یہاں پر گرا تھا۔ سونے کی تلاش میں کان کن یہاں پر پہنچے۔ مسیحی مشنری آئے اور پھر آسٹریلیا کی حکومت نے 1951 میں یہاں پر پیٹرول پوسٹ قائم کی۔ اس وقت تک کورو یہاں وبائی صورت اختیار کر چکا تھا۔ باہر سے آنے والوں کی توجہ اس طرف نہیں بلکہ ان کی کچھ اور چیزوں کی طرف تھی۔ حد سے زیادہ قتل و غارت اور کئی نازیبا رسومات کی طرف۔ مغرب سے آنے والے ایک ڈاکٹر نے پھر کورو کے پہلے شکار کو دیکھا۔ یہ بیماری ریکارڈ میں آ گئی۔ لیکن کورو صرف یہاں پر ہی کیوں ہوتا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیویارک سے تعلق رکھنے والے گائے ڈوشیک امریکی شہری طرزِ زندگی سے بھاگ کر دنیا پھرتے رہے۔ میکسیکو، سنگاپور، پیرو، افغانستان ، کوریا، ترکی، ایران۔ بچوں کی بیماریوں کے سپیشلسٹ جو دوست بھی آسانی سے بنا لیتے تھے اور لڑائی کے بھی ماہر تھے۔ انہوں نے 1957 میں کورو کا سن کر یہاں کا رخ کیا۔ مائیکروبائیولوجی، بچوں کی بیماریاں اور نئے کلچر۔ یہی ان کا شوق تھا۔ اس جگہ پر پہنچ کر گاوٗں گاوٗں پھر کر اس بیماری کا سروے کیا۔ یہاں پر پہاڑیوں اور گھاٹیوں میں چند میل کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ کئی مہینوں میں ہزار میل کی ہائکنگ کے بعد ان کو اندازہ ہوا کہ صورتحال کس قدر خراب ہے۔ چالیس ہزار کی آبادی میں سے دو سو افراد کا ہر سال مر جانا چھوٹا نمبر نہیں۔ خواتین اور بچوں کے مر جانے کا مطلب یہ تھا کہ فورے کا کلچر خطرے میں تھا۔ خواتین کی تعداد کم ہونے سے اس معاشرے میں ان کو حاصل کرنے کے لئے جھگڑوں میں مزید اضافے کا امکان تھا۔
آسٹریلیا کی سیاسی ھکومت کو گائے ڈو شیک کا یہ مشن پسند نہیں آیا۔ ان کے لئے نیو گنی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ ان کے کالونیل پاور بننے کا موقع تھا۔ یہاں سے منافع حاصل کرنا اور یہاں کی رہنے والوں کو “مہذب” کرنا آسٹریلیا کا مشن تھا اور دونوں کاموں میں کامیابی ہو رہی تھی۔ ننگ دھڑنگ رہنے والے اب لباس پہننا شروع ہو رہے تھے۔ سوٗر کے دانت کو ناک میں پرونے کا رواج کم ہو رہا تھا۔ لوگ اپنے مقامی پیداوار کے بجائے کافی کے کھیتوں میں کام کرنے کو تیار تھے اور کان کنی میں بھی ہاتھ بٹا رہے تھے۔ قتل و غارت کے ریٹ گر رہے تھے۔ جذام اور یاز کی بیماریاں ختم ہو گئی تھیں۔ آدم خوری کی روایت روبہ زوال تھی۔ اس سب میں گائے ڈوشیک کا کام آسٹریلیا کے لئے منفی پبلسٹی تھا۔ گائے ڈوشیک نے باز آنے والی طبیعت نہیں پائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گائے ڈوشیک نے مرنے والوں کے خاندانوں کو چاقو، کمبل، صابن، تمباکو وغیرہ کی رشوت دے کر لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے پر آمادہ کیا۔ اپنے نتائج امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا بھی بھیجے۔ تا کہ آسٹریلین حکومت ان کے کام میں زیادہ رکاوٹ نہ ڈالے۔ لیکن گائے ڈوشیک کو ایک اور بڑی رکاوٹ کا سامنا تھا اور وہ ساحری تھی۔
فورے کا خیال تھا کہ کورو کی وجہ جادوگری ہے۔ وہ گائے ڈوشینک کی وضاحتیں، جراثیم اور جینز کی کہانیاں سر ہلا کر سنتے تو تھے لیکن پرانے یقین ایسے کہاں جاتے ہیں۔ ساحری سے بچنے کے لئے وہ جسم کی ہر رطوبت، ہر کٹے ناخن اور ہر گرے بال کو جلا کر تلف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دنیا کی سب سے گہری لیٹرینیں اس وجہ سے بنائی تھیں۔ ان کے خیال میں سحر کرنے والے جسم سے کچھ لے کر اس پر جادو کر کے دلدلوں میں دباتے ہیں۔ جس جس طرح یہ دلدل میں ڈوبتا جاتا ہے، مریض کی حالت خراب ہوتی جاتی ہے۔ اس حالت میں ٹیسٹ کرنے کے لئے جسم سے خون، دماغ کا ٹشو یا کوئی بھی سیمپل حاصل کرنا بہت مشکل رہا لیکن وہ اپنا کام کرتے رہے۔ ریکارڈ رکھنے کے لئے ان کی بنائی ہوئی کتاب بیماریوں کی ہسٹری کی مفصل ترین کتاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بیماری ہوتی کس وجہ سے ہے؟ اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ جینیات اس کی وضاحت نہیں کرتی تھی۔ کیونکہ اس کا تعلق خاندان سے ہی نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ بڑوں میں تو یہ خواتین کو ہوتی تھی مگر کم عمر میں لڑکے لڑکیوں دونوں کو۔ انفیکشن بھی وجہ نہیں لگتی تھی کیونکہ کسی قسم کے ایسے آثار نہیں تھے۔ لیکن ان کے کئی گئے پوسٹ مارٹم کی وجہ سے ایک چیز سامنے آئی۔ اس کا شکار ہونے والوں کے دماغ میں سیاہی کی پتلی سی تہہ نظر آ رہی تھی۔ دوسری چیز دماغ کے آسٹرو سائٹس پر پڑے شگاف تھے۔ آسٹروسائٹ دماغ میں خون اور دماغ کے درمیان رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں اور دماغ میں بیرونی حملہ آوروں کو نہیں آتے دیتے۔ یہ شگاف اور سیاہ تہہ معمہ تھے۔ اور یہی چیز دو اور بیماریوں سکریپی اور کروزفیلٹ جیکب کی بیماری (پاگل گائے کی بیماری) میں بھی نظر آتے ہیں۔ کوئی زہریلا مادہ؟ وائرس؟ جینز؟ ان سب کا ملاپ؟ آخر وجہ کیا تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورے قبائل کو میڈیکل سائنس پر کچھ زیادہ اعتبار نہیں تھا۔ آسٹریلیا نے یہاں سے جذام ختم کیا تھا۔ یہاں رہنے والوں کو پتا تھا کہ انجیکشن لگا کر یہ بیماری تو ختم ہو گئی تھی۔ اگر جذام ختم ہو گئی تھیتو پھر کورو کیوں نہیں؟ یہ گورے ان سے خون لے کر جا رہے تھے۔ ان کے دماغ لے کر جا رہے تھے، جسم لے کر جا رہے تھے، واپس کچھ نہیں کر رہے تھے۔ فورے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ دوسری طرف آسٹریلیا کی حکومت ان لوگوں کو باڑ لگا کر بالکل الگ کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی کہ بیماری کہیں باہر نہ نکل آئے۔ کسی من چلے نے تو ان کی پوری نسل ختم کرنے کا آئیڈیا بھی پیش کیا تھا۔ کوئی بیکٹیریا، کوئی وائرس، آتوامیون بیماری، ہارمونکا غیرمتوازن ہونا، کیڑوں یا پودوں کے زہر وغیرہ کچھ بھی نہیں نکلا تھا۔ کسی نے آدم خوری کی طرف اشارہ کیا تھا لیکن فورے مردوں کو اچھی طرح پکا کر کھاتے تھے جس سے کسی جراثیم کے بچنے کا امکان نہیں تھا اور یہ رسم ہزاروں سال سے کر رہے تھے جبکہ کورو نئی بیماری تھی۔
اس دوران ایک لڑکی کی موت کے بعد گائے ڈوشینک اس کا دماغ حاصل کر کے امریکہ بھیج چکے تھے جہاں پر اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ایک چمپینزی کی کھوپڑی میں پانی کے ساتھ انجیکٹ کیا گیا تھا۔ اس کو کچھ نہیں ہوا تھا لیکن 1966 میں بریک تھرو ہوا۔ اس چمپینزی کا ہونٹ لٹکنا شروع ہوا، چال لڑکھڑانے لگی۔ اس کے خون کے ٹیسٹ سے کسی بیماری یا زہرخوانی کا پتا نہیں لگا۔ اس کے دماغ کا تجزیہ کیا گیا تو اس میں بھی سیاہ تہہ اور سوراخ نکلے۔ چمپنیزی کو کورو تھا۔ گائے ڈوشیک کی ٹیم نے اگلے ایک دن میں اس پر پیپر لکھا۔ دماغ کی بیماری بھی ایک دوسرے سے لگ سکتی ہے، یہ جینیاتی نیہں۔ یہ نئی دریافت تھی۔ کورو، سکیبیز اور کروزفیلٹ جیکب ایک نئی قسم کے وائرس کا شاخسانہ ہے جس کو اس پیپر میں “سست وائرس” کا نام دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فورے میں کورو کا تعلق آدم خوری سے تھا۔ مغز خواتین کھایا کرتی تھیں۔ اگرچہ یہ بچوں کو نہیں کھلایا جاتا تھا لیکن کچھ مائیں یہ خاص چیز بچوں کو بھی دے دیتی تھیں۔ اس وجہ سے یہ بیماری خواتین اور بچوں میں تھی۔ اور اس بیماری کے اثرات اس کے کئی سال بعد نمودار ہوتے تھے، جس کی وجہ سے آدم خوری کم ہو جانے کے بعد بھی یہ جاری تھی۔ جنازوں پر ضیافت کی روایت ختم ہو جانے کے بعد یہ بیماری بھی ختم ہوتی گئی۔ 1975 میں پاپوا نیو گنی نے آسٹریلیا سے آزادی حاصل کی تو بیماری بھی ختم ہو چکی تھی۔ 75 سال تک فورے کی تہذیب کو خطرے میں ڈالنے کے بعد یہ دنیا سے مٹ گئی۔ 1976 میں گائے ڈوشینک کو اپنے کام پر نوبل انعام دیا گیا۔ گائے ڈوشینک نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ٹائی اپنا نوبل انعام وصول کرتے وقت لگائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بڑا سوال باقی تھا۔ کورو، سکریپی اور پاگل گائے کی بیماری کے ذمہ دار سست وائرس آخر ہیں کیا؟ یہ کسی بھی طریقے سے مرتے کیوں نہیں؟ گائے ڈوشینک کی اس دریافت کو لے کر آگے بڑھا کر اس کے جواب تک پہنچا ایک اور لمبی کہانی ہے جس میں ایک سائنسدان کو اپنی عزت اور اعتبار داوٗ پر لگانا پڑا۔ اپنے ہم عصروں کے مذاق برداشت کرنا پڑے اور پھر اس سب میں سے گزر کر انہوں نے اس کتھی کو سلجھا لیا۔ یہ 1997 میں نوبل انعام جیتنے والے سائنسدان سٹینلے پروسنر کی کہانی ہے۔ یہ سست رفتار وائرس، وائرس نہیں پروٹین ہیں۔ جن کو انہوں نے پریون کا نام دیا۔ پریون کے اس تھیوری نے اس چیز کی بھی وضاحت کر دی کہ کوری کی یا پاگل گائے کی بیماری آخر آئی کہاں سے۔
الزائمر، پارکنسن اور دوسری نیورو ڈی جنریٹو بیماریوں کے پیچھے بھی پریون پروٹین ہیں اور یہ بیماریاں کروڑوں مریضوں کو لاحق ہیں۔ اسی تحقیق کو آگے بڑھا کر اگر ان بیماریوں کو سست کر دینا یا علاج کر دینا۔۔۔ کئی نئے نوبل انعامات کی وجہ بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میڈیکل سائنس میں تحقیق ایسے ہی ہوتی ہے۔ کونسا بریک تھرو کب، کیسے، کہاں ہو؟ کس تحقیق کا تعلق کس سے نکلے، یہ سب کسی ٹائم ٹیبل پر نہیں ہوتا۔ کامیابی کی کبھی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اور کوئی بھی کامیابی بڑا صبرآزما کام ہے۔
کورو کی بیماری پر
https://medlineplus.gov/ency/article/001379.htm
ڈینیل گائے ڈوشیک کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Daniel_Carleton_Gajdusek
پریون پروٹین پر
https://en.wikipedia.org/wiki/PRNP
سٹینلی پروزنر کے نوبل انعام پر
https://www.nobelprize.org/prizes/medicine/1997/prusiner/biographical/