آج سے ایک ہزار سال پہلے ایک تہذیب اپنے عروج تک پہنچی تھی۔ اس کا دارالحکومت دنیا کا سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا شہر تھا۔ یہ جنوب...
آج سے ایک ہزار سال پہلے ایک تہذیب اپنے عروج تک پہنچی تھی۔ اس کا دارالحکومت دنیا کا سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا شہر تھا۔ یہ جنوب مشرقی ایشیا میں خمیر کی سلطنت کا دارالحکومت انگکور تھا۔ ان کا بنایا شاندار مندر انگکور واٹ پری ماڈرون دور کی شاندار ترین مذہبی عمارت تھی۔ اس کا سائز اس قدر زیادہ کہ پرانی عمارات میں دیوارِ چین کے علاوہ یہی عمارت ہے جو آج بھی خلا میں دیکھنے سے نمایاں ہے۔
وقت چلتا رہا۔ انیسویں صدی میں جہاں یہ عظیم شہر کھڑا تھا، وہاں پر بس آٹھ چھوٹے دیہات رہ گئے تھے۔ یہ علاقہ آج کا کمبوڈیا ہے اور دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ہے۔ آج کے کمبوڈیا کے قومی جھنڈے میں ان کے ماضی، یعنی انگکور کی تصویر بنی ہے۔ اس عظیم سلطنت، وسیع شہر اور تابناک ماضی کی پرچھائیاں بچی ہیں۔ ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا ہمیں حالیہ برسوں میں ہی پتا لگنا شروع ہوا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں کئے گئے فضائی ریڈار کے سروے، زمینی سروے، کھدائی اور درختوں کے رنگز کی پیمائش نے ہمیں اس عروج کے سست رفتار زوال کی کہانی بتانا شروع کر دی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہونے والے سب سے بڑے قتلِ عام کا شکار اور پول پوٹ کی خون آشام ھکومت کی سرخی سے نکلتا ہوا کمبوڈیا کسی وقت دنیا کی عظیم طاقت تھا جو ویت نام، لاوٗس اور تھائی لینڈ تک پھیلا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خمیر کون تھے؟ یہ آج کے کمبوڈیا میں نوے فیصد رہنے والوں کے اجداد تھے۔ پانچ ہزار سال قبل یہاں پر بس خانہ بدوش شکاری رہا کرتے تھے۔ جنوبی چین سے چاول کی کاشتکاری کی ٹیکنالوجی 2000 قبلِ مسیح میں یہاں پہنچی تھی۔ 500 قبلِ مسیح میں یہاں پر لوہے کے اوزار بنانے والی ٹیکنالوجی پہنچے جس سے زیادہ خوراک حاصل کرنا ممکن ہوا اور آبادی بڑھنا شروع ہوئی۔ سن 200 تک یہاں پر قصبے اور چھوٹی راجدہائیاں آباد ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ انڈیا سے ہندو اور بدھ آئے۔ چین سے کلچرل اثرات۔ 611 میں یہاں پر لکھی سب سے پرانی عبارت ملتی ہے۔
آپس میں ہونے والی لڑائیوں کے بعد سن 802 میں یہ علاقہ ایک بادشاہ کے نیچے اکٹھا ہو چکا تھا۔ اگلے پانچ صدیوں میں آنے والے چوبیس بادشاہ۔ ہر بادشاہ پچھلے بادشاہ سے بڑے پراجیکٹ کرنے کا مقابلہ کرتا اور عالمی ریکارڈ بناتا۔ اندرا ورمن نے تاجپوشی کے پانچ دن بعد ایک بڑی جھیل بنانا شروع کر دی اور اس کا نام اندرا کا سمندر رکھا۔ اس سے اگلے بادشاہ یاشو ورمن نے اس سے چار گنا بڑی جھیل بنائی اور نام یاشو ورمن کا مشرقی سمندر رکھا۔ سوریا ورمن نے اس سے بھی بڑی جھیل بنوائی اور یہ مغربی سمندر تھا جو صنعتی دور سے پہلے بننے والا سب سے بڑا پراجیکٹ تھا۔ پانچ میل لمبا اور ڈیڑھ میل چوڑا۔ اس سے اگلے بادشاہ نے جایا کا سمندر بنوایا لیکن وہ اس کا مقابلہ نہ کر سکا اور دو میل لمبا اور ایک میل چوڑا رہا۔ شاہی عمارتیں، مندر اور تعمیراتی پراجیکٹ سستے نہیں تھے۔ ان کا خرچہ ٹیکس اور جبری مشقت سے لیا جاتا تھا۔ مغربی سمندر بنانے کے لئے دو لاکھ افراد نے تین سال تک کام کیا ہو تگا۔ ایک بادشاہ کے حرم میں چار ہزار خواتین ہوا کرتی تھیں۔ ایک درمیانہ سائز کے مندر میں ایک ہزار ایڈمنسٹریٹر، چھ سو رقاصائیں، سو پروفیسر، اور بہت سے دوسرے۔ یعنی بارہ ہزار افراد جن کا پیٹ عوام کی ٹیکس سے بھرا جاتا تھا۔ پول پوٹ کا کمیونزم شاید لمبے عرصے تک ہونے والے اس روایت کا ری ایکشن ہو۔
اور یہ پرامن نہیں تھے۔ مغرب میں تھائی، مشرق میں ویتنام کے چام، شمال مشرق میں ویتنامی اور پھر برما تک انہوں نے قبضہ کیا۔ ہاتھی اور گھوڑوں پر فوجوں اور بحریہ اور پیدل فوجوں کی مدد سے انہوں نے فتوحات کیں اور ہر زمانے کی بڑی طاقت کی طرح شہروں اور عبادت گاہوں سے کانسی، چاندی اور سونا لوٹ کر اپنے خزانے بھرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگکور چار سو مربع میل تک پھیلا ہوا شہر تھا۔ اتنا بڑا کہ آج بھی بڑے شہروں میں ہوتا۔ آبادی کی ڈینیسیٹی کم تھی لیکن 1400 سال کا عروج دیکھا تھا۔ چین سے ان کی بڑے پیمانے پر تجارت ہوتی تھی۔ چین سے آنے والے ژو ڈاگوان نے یہاں پر ایک سال گزارا اور شہر کی کہانیاں لکھیں۔ “شہر کے بیچ میں ایک سونے کا مینار (بائیون) ہے۔ اس کے مشرق میں سونا کا پُل ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں سونے کے بنے شیر ہیں۔ اس مینار سے ایک لی (آدھا کلومیٹر) دور ایک کانسی کا مینار (بافون) ہے۔ یہ سونے کے مینار سے بھی اونچا ہے۔ کیا ہی شاندار نظارہ ہے۔ اس سے دس لی (پانچ کلومیٹر) دور مشرقی سمندر ہے۔ اس کے درمیان میں ایک بدھا کا مجسمہ ہے جس کی ناف سے پانی ہر وقت بہتا ہے۔”
غلاموں کے بارے میں “جوان اور مضبوط غلام کپڑوں کے سو تھانوں کے عوض بکتا ہے۔ کمزور غلام تین سے چالیس تھانوں کے عوض۔ ان کو گھر میں صرف فرش کے نیچے بیٹھے کی اجازت ہوتی ہے۔ کام کرنے کے لئے اوپر جا سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے ہاتھ باندھ کر اور جھک کر۔ اگر کوئی غلطی کر لے تو وہ سر جھکا دیتے ہیں اور مار کھاتے وقت ہلتے نہیں۔ اگر کوئی غلام بھاگ جائے اور پکڑا جائے تو اس کے چہرے پر نیلا نشان کنندہ کر دیا جاتا ہے اور گردن میں لوہے کا طوق لٹکا دیا جاتا ہے۔”
مجرموں کے بارے میں “اگر کسی پر جرم کا الزام لگے اور وہ جرم قبول کرنے سے انکار کرے تو اس کو اپنا ہاتھ کھولتے تیل کی کڑاہی میں ڈالنا ہو گا۔ اگر مجرم ہوا تو ہاتھ جل کر راکھ ہو جائے گا۔ ایسے مجرم کو گڑھا کھود کر دبا دیا جائے گا۔ پتھر مارے جائیں گے اور جب ان میں دفن ہو جائے گا تو وہیں چھوڑ دیا جائے گا۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خمیر کی اپنی کتابیں تھی۔ مذہبی کتابوں کو کھجور کے پتوں پر سیاہ رنگ سے لکھا جاتا تھا۔ دوسری کتابوں کو سفید پنسل سے۔ بدقسمتی سے یہاں کے حبس والے موسم میں ان کی زندگی زیادہ نہیں تھی۔ ان کی تمام کی تمام کتابیں ضائع ہو گئیں۔ ورنہ یہ ہمیں ان کی سائنس، تاریخ، معاشرے اور فلسفے کا بتاتیں۔ جیسے قدیم یونان یا روم کو ہم جانتے ہیں، ان کو نہیں جان سکتے۔ خمیر کے ہومر، افلاطون، ارسطو، سافو، ہیروڈوٹس جیسے لوگ کیا اور کیسا سوچتے تھے؟ یہ ہمیشہ کے لئے مٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے عرصے تک ملک کے بدترین حالات کی وجہ سے ان کی تاریخ پر زیادہ کام نہیں ہوا۔ (ان حالات کی تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔ 2002 میں آسٹریلیا، فرانس اور کمبوڈیا کے آرکیولوجسٹس نے یہاں پر ایک بڑا پراجیکٹ شروع کیا۔ جس میں ناسا کے خلائی سروے، جہاز سے لی گئی ہائی ریزولیوشن فوٹوگرافی، زمینی کھدائی اور زمینی سروے کئے گئے۔ اس سے نہروں کے جال کا پتا لگایا گیا۔ سڑکوں کا پتا لگا۔ آج کے چاولوں کے کھیتوں کے پیچھے چھپ جانے والے چاولوں کے کھیٹوں کے گرڈ کا پتا لگا۔ پرانے اور کاٹ دئے گئے جنگلوں کا پتا لگا جن کو چاول کے کھیتوں، مندروں اور گھروں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس سے ان کے پانی کی مینجمنٹ کے وسیع اور پیچیدہ نیٹ ورک کا اندازہ ہونا شروع ہوا۔ مون سون کا پانی پکڑنا اور استعمال کرنا تا کہ زیادہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے اور بعد میں استعمال ہو سکے۔ خوراک کی فراہمی میں خلل نہ آئے۔ آبادی بڑھتی رہے۔ سلطنت طاقتور رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جایا کی حکومت کے سو سال بعد اس سلطنت کا زوال ہوا تھا۔ تیرہویں صدی کے بعد شاندار عمارات کی نئی تعمیر رک گئی تھی۔ سنسکرت میں لکھی نئی تحریریں 1327 کے بعد بند ہو گئی تھیں۔ سولہویں صدی کے بعد خمیر کی سلطنت نے سمٹنا شروع کر دیا تھا۔
ایک وجہ ہمسائیوں سے ہونے والی لڑائیاں تھیں جنہوں نے طاقتور ہونا شروع کر دیا تھا۔ سب سے بڑی ضرب اس وقت لگی جب ویتنام نے می کونگ ڈیلٹا ان سے چھین لیا، تھائی اس سے پہلے ہی بہت سا حصہ حاصل کر چکے تھے۔ دوسری وجہ ان کی اکانومی میں ہونے والی تبدیلیاں تھیں جن کو ویتنام کے ساتھ لمبے تنازعے نے دشوار بنا دیا تھا۔
لیکن سب سے بڑی تبدیلی موسم کی تبدیلی تھی۔ پانی کے ان نیٹ ورکس کی سٹڈی سیلابوں اور قحط سالی کا بتاتی ہے جو چودہویں اور پندرہویں صدی میں آتے رہے۔ یہ بڑی جھیلوں کی موٹی مٹی سے پتہ لگتا ہے۔ جو تیز بارشوں اور منہ زور سیلابوں کی خبر دیتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بڑی جھیلوں کے نکاس جو بلاک ہونے کے سبب دوبارہ بنائے گئے اور پانی کا رخ جس طریقے سے بدلا گیا، یہ پانی کی کمی کا بتاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ درختوں میں بنے رنگز کی 979 سالہ تاریخ کی سٹڈی سے پتا لگتا ہے۔ ان صدیوں میں طویل مدت کے قحظ رہے اور درمیاں میں کہیں بھاری بارشیں۔ پچھلے ایک ہزار سال کے خشک ترین اور گیلے ترین سال اکٹھے۔
جس طرح خمیر رہ رہے تھے، انہوں نے نہ جانتے ہوئے اپنے ماحول کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ میدانوں اور پہاڑیوں سے درخت صاف کر دئے تھے۔ بھاری بارش مٹی کو کاٹ کر جھیلوں میں لے جاتی تھی۔ ان میں جمع ہوئی یہ مٹی سیلابوں کا باعث بنتی تھی۔ ان سب تبدیلیوں نے یہاں کے لوکل موسم کو بدل دیا تھا۔ انگکور کا سسٹم اس کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کو ٹھیک کرنے کے لئے بنائے گئے مزید بڑے پراجیکٹ اس خرابی کی رفتار تیز تر کر رہے تھے۔ اور پھر وہ وقت آن پہنچا جب کمزور ہوتی سلطنت کے پرانے دشمنوں نے اس سے فائدہ اتھایا۔ خمیر اپنے دشمنوں کو نہیں روک سکتے تھے۔ اپنے عظیم الشان پراجیکٹس کو افورڈ نہیں کر سکتے تھے، ان کو برقرار بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ زراعت چھوڑ کر بحری تجارت پر شفٹ ہونا پڑا لیکن تجارتی راستوں اور سیاسی تبدیلیوں نے یہ راستہ بھی بند کر دیا۔
خمیر کی شان و شوکت ماضی کی کہانی بن گئی جو اب کتابوں میں ملتی ہے۔ ساتھ لگی تصویر عظیم اور شاندار قدیم مندر اینگکور واٹ کی، جو آج سیاحوں کا ایک پسندیدہ مقام ہے۔
یہاں کی تاریخ کا بیسویں صدی کا ایک باب
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_818.html
قوموں کے عروج و زوال کے فریم ورک پر
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_372.html
اینگکور کی تاریخ پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Angkor