کئی طرح کے درخت ہیں جو خزاں میں اپنے پتے گرا دیتے ہیں جبکہ بہار میں واپس سرسبز ہو جاتے ہیں۔ اس عام سے لگنے والے منظر پر جب گہرائی میں غو...
کئی طرح کے درخت ہیں جو خزاں میں اپنے پتے گرا دیتے ہیں جبکہ بہار میں واپس سرسبز ہو جاتے ہیں۔ اس عام سے لگنے والے منظر پر جب گہرائی میں غور کریں تو یہ اپنے اندر بڑا اسرار رکھتا ہے۔ آخر درخت یہ کام کر کیسے لیتے ہیں؟ اس کے لئے ان کو ایک بڑی اہم چیز درکار ہے۔ وقت کا احساس۔ ان کو کیسے پتا لگتا ہے کہ بہار کی آمد ہے یا پھر بس عارضی طور پر موسم چند روز کے لئے تبدیل ہوا ہے؟
جنوری یا فروری میں چند روز کے لئے درجہ حرارت بڑھ جانا غیرمعمولی نہیں لیکن پتے جھڑ دینے والے تجربہ کار درخت اس موسم میں نئے پتے نکالنا شروع نہیں کرتے۔ ٹھیک موسمِ بہار میں ایسا کرتے ہیں۔ ان کو کیسے پتا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے یا نہیں؟ اس معمے کو کچھ درختوں کے لئے ہم نے حل کرنا شروع کیا ہے۔ پھل دار درخت گنتی کر سکتے ہیں! یہ ایک خاص درجہ حرارت سے اوپر کے گرم دن گنتے ہیں اور جب گنتی مکمل ہو جائے تو پھر ان کو اعتماد ہو جاتا ہے سب ٹھیک ہے اور یہ والی گرمی بہار کی آمد کی اطلاع ہے۔ لیکن صرف یہی ایک طریقہ نہیں۔
پتے گرانے اور واپس اگانے کا دارومدار صرف درجہ حرارت پر ہی نہیں بلکہ اس پر بھی ہے کہ دن کی لمبائی کتنی ہے۔ مثال کے طور پر، بیچ کے درخت اس وقت تک نہیں دوبارہ پتے اگانا شروع کرتے جب تک کہ دن کی لمبائی تیرہ گھنٹے نہ ہو جائے۔ یہ خود حیران کن ہے کیونکہ اس سے پتا لگتا ہے کہ درختوں میں کسی قسم کی “دیکھنے” کی حس بھی ہونے چاہیے۔ اس حس کو تلاش کرنے کے لئے ہمیں پتوں کی طرف دیکھنا ہو گا۔ کیونکہ یہ سولر سیل ہیں اور ان کے پاس روشنی کو موصول کرنے کا آلہ لگا ہے۔ گرمیوں میں تو یہ کام پتے کرتے ہیں لیکن بہار کی آمد کے وقت یہ پتے نکلے نہیں ہی نہیں ہوتے۔ ابھی ہمیں اس پراسس کا مکمل طور پر علم نہیں لیکن خیال ہے کہ پتے کی کونپل میں یہ حس پائی جاتی ہے۔ اس کونپل میں فولڈ ہوئے ننھے منے سے پتے آرام کر رہے ہوتے ہیں جو بھورے سکیل سے ڈھکے ہوتے ہیں تا کہ خشک نہ ہو جائیں۔ اس بھورے سکیل کو روشنی میں دیکھا جائے تو یہ شفاف ہو گا! یعنی روشنی اس میں سے گزر کر پتے تک جا سکتی ہے اور اس کو بہت ہی تھوڑی سی مقدار میں روشنی چاہیے کہ یہ دن کی لمبائی معلوم کر سکے۔ درخت کی کئی انواع پر ایسی کونپلیں اس کے تنے میں بھی چھپی ہوتی ہیں۔
اور درخت کو یہ علم کیسے ہوتا ہے کہ موجودہ موسم بہار کا ہے یا خزاں کا؟ اس کا ری ایکشن دن کی لمبائی اور درجہ حرارت سے ٹریگر ہوتا ہے۔ بڑھتے درجہ حرارت کا مطلب بہار اور گرتے کا مطلب خزاں۔ درخت اس سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اس لئے درختوں کی وہ انواع جو شمالی نصف کرے میں اگتی ہیں، ان کو اگر جنوبی کرے میں لے جایا جائے، مثال کے طور پر نیوزی لینڈ میں اگایا جائے تو فورا اپنا سائکل الٹا لیتی ہیں۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ ان کی یادداشت بھی ہے، ورنہ دنوں کی لمبائی گننا، گرم دنوں کی تعداد گننا یا درجہ حرارت کا موازنہ کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
کئی مرتبہ، اگر موسم خزاں میں غیرمعمولی طور پر گرم ہو جائے تو کچھ درخت کنفویز ہو جاتے ہیں (ہر درخت کا اپنا انفرادی کیریکٹر ہے، کچھ جلد کنفیوز ہو جاتے ہیں، ان کے ہمسائے نہیں)۔ ان کی کونپلیں بڑھ جاتی ہیں، یہاں تک کہ کچھ درخت تھوڑے سے پتے بھی نکال لیتے ہیں۔ ایسے درختوں کو اپنی اس بے وقوفی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ پتے سردیوں میں رہ نہیں سکتے، کونپلیں ضائع ہو جاتی ہیں اور ان کو بہار کے لئے نئی کونپلیں تیار کرنا پڑتی ہیں۔ اگر درخت اس معاملے میں احتیاط نہ کرے تو اس کی توانائی کی سپلائی کم رہ جائے گی اور بہار کا موسم آنے پر اس کی تیاری اچھی نہیں ہو گی۔
وقت کے حساب سے زندگی گزارنا اچھی، محفوظ اور لمبی زندگی گزارنے کا راز ہے۔ یہ کام صرف درخت ہی نہیں، انکے بیج بھی کرتے ہیں، جو کہ گرتے ساتھ نہیں نہں پھوٹ پڑتے۔ اس کے لئے بھی بہار کا انتظار کرتے ہیں۔ اس کے لئے ان بیجوں کے اپنے طریقے ہیں۔
اس کا پہلا حصہ
https://waharaposts.blogspot.com/2019/05/blog-post_17.html