انیسویں صدی کا دوسرا نصف تھا۔ “خلیے کی تھیوری” بڑی حد تک تسلیم کی جا چکی تھی۔ یعنی کہ یہ خیال کہ تمام جاندار چھوٹے یونٹس سے بنے ہیں جو ...
انیسویں صدی کا دوسرا نصف تھا۔ “خلیے کی تھیوری” بڑی حد تک تسلیم کی جا چکی تھی۔ یعنی کہ یہ خیال کہ تمام جاندار چھوٹے یونٹس سے بنے ہیں جو کہ ایک خلیہ ہے۔ نیوروسائنٹسٹ ابھی تذبذب کا شکار تھے۔ باقی جسم تو الگ الگ خلیوں سے بنا ہے لیکن کیا دماغ بھی؟ خوردبین کے نیچے نیورونز کے درمیان آپس میں کوئی جوڑ یا خلا نہیں نظر آتا تھا۔ یہ سب ایک بڑا ٹکڑا لگتا تھا۔ نیوروسائنٹسٹس کا خیال تھا کہ دوسرے خلیوں کے برعکس یہ مل کر کام کرتے ہیں۔ اس میں خلیے آپس میں ضم ہو جاتے ہیں اور نیورونز کے اس بڑے جال کو نیورل ریٹیکلم کا نام دیا گیا تھا۔
اس خیال میں تبدیلی کا آغاز ایک حادثے سے ہوا۔ کامیلو گولجی اٹلی کے ایک پاگل خانے (یہ انیسویں صدی کا قصہ ہے) کے کچن میں موم بتی کی روشنی میں کام کر رہے تھے کہ غلطی سے ان کی کہنی لگی اور چاندی کا ایک محلول ،مرڈا، الو کے دماغ کے ایک ٹکڑے پر جا گرا۔ گولجی کا خیال تھا کہ اس وجہ سے یہ خراب ہو گیا ہے لیکن انہوں نے چند ہفتوں بعد اس کا معائنہ خورد بین کے نیچے کیا تھا تو دیکھا کہ چاندی نے دماغ کے خلیوں پر بڑے مفید طریقے سے داغ لگائے ہیں۔ کچھ خلیوں نے اس کو جذب کر لیا تھا اور جن خلیوں نے جذب کیا تھا، ان کا رنگ نمایاں ہو گیا تھا۔ پیلے پس منظر میں سیاہ ہیولے بن گئے تھے اور ان کی باریک دھاگے میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ گولجی نے داغ لگانے کی اس تکنیک کو بہتر بنایا اور اس کا نام “سیاہ ری ایکشن” رکھا۔
سائنسدان پہلے ہی جانتے تھے کہ دماغ میں دو اقسام کے خلیے ہیں، نیورون اور گلیا (گلیا کے بارے میں تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔ لیکن گولجی وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے ان خلیوں کو اپنی اصل شکل میں اس قدر تفصیل سے دیکھا۔ گلیا ایسے جیسے سیاہ جیلی فش عنبر میں محفوظ ہو گئی ہو اور نیورون، جو کہ تین حصوں میں تھا۔ گول مرکزی جسم، اس باڈی سے کسی جھاڑیوں کی طرح نکلتی شاخیں جو ڈینڈرائیٹ تھے اور ایک لمبا اور دور تک پھیلا ہوا بل کھاتا بازو جو اپنی ننھی منی شاخیں رکھتا تھا، یہ ایگزون تھا۔ گولجی نے نتیجہ نکالا کہ نیورون اپنے ایگزون کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ اس کی شاخیں دوسرے نیورونز سے اس طرح الجھی پڑی تھیں کہ درمیان میں کوئی خلا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کو دیکھنے کے بعد گولجی ریٹیکلم تھیوری کے بڑے سپورٹر بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانتیاگو کاہال کے نیوروسائنس کے شعبے میں آنے کی وجہ گولجی بنے۔ وہ انکے کام اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو اپنا کیرئیر چنا۔ گولجی کی سٹین کرنے والی تکنیک استعمال کر کے دماغ کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ان کی نظر کورٹیکس پر تھی۔ اس کو سینکڑوں طریقوں سے سٹین کر کے خورد بین سے مشاہدہ کرتے رہے۔ ان کا نکالا ہوا نتیجہ گولجی سے بالکل مختلف تھا۔ سینکڑوں مختلف تجربات سے کاہال کو گولجی کے برعکس نیورونز ایک دوسرے میں ضم نظر نہیں آئے۔ یہ الگ الگ تھے۔ کاہال نے ان کو چن کر مارنے کا تجربہ کیا۔ جب ایک نیورون مر جاتا تھا تو اکیلا ہی مرتا تھا۔ اس کے ساتھ والے نیورون ویسے ہی رہتے تھے۔ اگر یہ ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک جسم ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ “خلیاتی تھیوری” سے دماغ بھی ماورا نہیں تھا۔ نیورون اپنی اپنی الگ شناخت رکھتے تھے۔ کاہال نے گولجی کا ایک اور میٹافور بھی مسترد کر دیا۔ یہ نیٹورک افقی طور پر پھیلا ہوا نہیں تھا۔ بلکہ سو نیورونز کے قریب کے آپس میں ورٹیکل گروپ نظر آئے جو دماغ کی سطح کو کور کرتے تھے۔ یہ اپنے عمودی ساتھیوں سے بھی کنکنن بناتے تھے لیکن زیادہ تر کنکشن ایک ستون کی صورت میں تھے۔
تیسرا یہ کہ گولجی کا خیال تھا کہ نیورون اپنے ایگزون کے ذریعے رابطہ کرتا ہے۔ کاہال نے اس کو بھی رد کر دیا۔ یہ رابطہ ڈینڈرائیٹ اور ایگزون کا تھا، ویسے جیسے سو انگلیوں والا ہاتھ کسی سو انگلیوں والے دستانے میں داخل ہو رہا ہو۔ نیورون بولتے ایگزون کے ذریعے تھے جبکہ سنتے ڈینڈرائیٹ کے ذریعے تھے۔
ان تمام دریافتوں کے بعد کاہال نے “نیورون ڈاکٹرائن” تجویز کی۔ اس کو نیوروسائنس کی تاریخ میں اہم ترین دریافت سمجھا جاتا ہے۔ کاہال کے بیان کردہ نیورون مسلسل نہیں تھے۔ صرف ایک سمت میں انفارمیشن بھجتے تھے۔ ڈینڈرائیٹ سے خلیے کی باڈی سے ایگزون کی طرف اور پھر اگلے نیورون کے ڈینڈرائیٹ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوروسائنس کی اس اہم ترین دریافت پر کاہال کو اسے دوسروں تک پہنچانے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنا جرنل خود شائع کرنا پڑا لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا۔ پھر اپنا کیرئیر داوٗ پر لگا کر اپنے ذاتی خرچے پر 1889 میں جرمنی گئے۔ ان کو بنائی گئی شاندار فری ہینڈ ڈرائنگز دکھا کر ان کو اپنے کچھ ہم خیال بنانے میں آسانی ہوئی۔ اگلے برسوں میں نیورون ڈاکٹرائن نے نیوروسائنس میں اپنی جگہ بنا لی۔
نیوروسائنس میں دو گروپ بن گئے۔ ایک طرف گولجی کے ریٹیکولسٹ تھے جبکہ دوسری طرف کاہال کے نیورونسٹ تھے جن کے درمیان کشیدگی میں ہر سال اضافہ ہو جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کو اچھا مذاق پسند ہے۔ نیورون کو دیکھنے کی تکنینک گولجی کی تھی جبکہ اس سے نیورون کا فنکشن سمجھنے والے کاہال تھے۔ گولجی اور کاہال کو اس کاوش کے نتیجے میں 1906 میں مشترک نوبل انعام سے نوازا گیا۔ کاہال نے اس پر احتجاج بھی کیا۔ نوبل انعام وصول کرنے کی تاریخ میں شاید سب سے دلچسپ منظر ان کی تقاریر کا تھا۔ کاہال نے گولجی کو اور ان کے کام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر غلط بیانی کرتے ہیں۔ گولجی کی تقریر اس سے زیادہ سخت تھی۔ یہ نوبل پرایز امن کا نہیں تھا۔
نیورون ڈاکٹرائن جیت گئی کیونکہ یہ کہیں بہتر وضاحت کرتی تھی۔ ہر عظیم دریافت کی طرح کاہال کے نیورون ڈاکٹرائن نے جتنے سوالوں کے جواب دئے، اتنے ہی نئے سوال کھڑے کر دئے۔ سب سے اہم یہ کہ اگر نیورون الگ ہیں تو پھر ان کے درمیان سگنل کس طرح سفر کرتا ہے۔ دو ہی ممکنات لگتے تھے۔ یا تو برقی کرنٹ سے، یا پھر کیمیائی نبض سے۔ ایک بار پھر اس بحث نے نیوروسائنس کی کمیونیٹی کو دو گروپس میں منقسم کر دیا۔ “سپارک” جو برقی سگنل کے حامی تھی جبکہ “سوپ” جو کیمیائی ذریعے والے تھے۔ سپارک اور سوپ کی یہ لڑائی اگلے پچاس سال تک چلنی تھی۔
اس کے بعد سے لے کر اب تک، دماغ کی لوکلائزیشن سے لے کر نیوروجینیسز تک جتنے بھی تنازعے رہے ہیں، ان میں دماغ کو کوئی بہت خاص اور بالکل مختلف عضو سمجھنے والوں کو ابھی تک کسی تنازعے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کا سٹرکچر باقی جسم کی طرح اپنا سپیشلائزڈ کام ضرور کرتا ہے، لیکن زندگی کا پروگرام ان کے لئے مختلف نہیں۔
ساتھ لگی تصویر کاہال کی بنائی گئی ڈایاگرام ہے۔
دماغ کا دوسرا حصہ ۔ گلیل سیل
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_643.html
دماغ کا دوسرا حصہ ۔ گلیل سیل
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_643.html
نیورون ڈاکٹرائن پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Neuron_doctrine